بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے
انوکھے انوکھے خسارے ترے
اللے تللے ادھارے ترے
بھلا کون قرضے اتارے ترے
گرانی کی سوغات حاصل مرا
محاصل ترے گوشوارے ترے
مشیروں کا جمگھٹ سلامت رہے
بہت کام جس نے سنوارے ترے
مری سادہ لوحی سمجھتی نہیں
حسابی کتابی اشارے ترے
کئی اصطلاحوں میں گوندھے ہوئے
کنائے ترے استعارے ترے
تو اربوں کی کھربوں کی باتیں کرے
عدد کون اتنے شمارے ترے
تجھے کچھ غریبوں کی پروا نہیں
وڈیرے ہیں پیارے دلارے ترے
ادھر سے لیا کچھ ادھر سے لیا
یونہی چل رہے ہیں ادارے ترے
انور مسعود
پڑھنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ مٹ بھی گئی تھی
بجلی
نے گھٹاؤں پہ جو تحریر لکھی تھی
چپ
سادھ کے بیٹھے تھے سبھی لوگ وہاں پر
پردے
پہ جو تصویر تھی کچھ بول رہی تھی
لہراتے
ہوئے آئے تھے وہ امن کا پرچم
پرچم
کو اٹھائے ہوئے نیزے کی انی تھی
ڈوبے
ہوئے تاروں پہ میں کیا اشک بہاتا
چڑھتے
ہوئے سورج سے مری آنکھ لڑی تھی
اس
وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے
اخبار
میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی تھی
شبنم
کی تراوش سے بھی دکھتا تھا دل زار
گھنگھور
گھٹاؤں کو برسنے کی پڑی تھی
پلکوں
کے ستارے بھی اڑا لے گئی انورؔ
وہ
درد کی آندھی کہ سر شام چلی تھی
جو بارشوں میں جلے تند آندھیوں میں جلے
چراغ
وہ جو بگولوں کی چمنیوں میں جلے
وہ
لوگ تھے جو فریب نظر کے متوالے
تمام
عمر سرابوں کے پانیوں میں جلے
کچھ
اس طرح سے لگی آگ بادبانوں کو
کہ
ڈوبنے کو بھی ترسے جو کشتیوں میں جلے
یہی
ہے فیصلہ تیرا کہ جو تجھے چاہے
وہ
درد و کرب و الم کی کٹھالیوں میں جلے
دم
فراق یہ مانا وہ مسکرایا تھا
مگر
وہ دیپ کہ چپکے سے انکھڑیوں میں جلے
وہ
جھیل جھیل میں جھرمٹ نہ تھے ستاروں کے
چراغ
تھے کہ جو چاندی کی تھالیوں میں جلے
دھواں
دھواں ہے درختوں کی داستاں انورؔ
کہ
جنگلوں میں پلے اور بستیوں میں جلے
دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے
ہر
شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے
تنہا
تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ
اک
لذت پابندیٔ اظہار و بیاں ہے
حق
بات پہ ہے زہر بھرے جام کی تعزیر
اے
غیرت ایماں لب سقراط کہاں ہے
کھیتوں
میں سماتی نہیں پھولی ہوئی سرسوں
باغوں
میں ابھی تک وہی ہنگام خزاں ہے
احساس
مرا ہجر گزیدہ ہے ازل سے
کیا
مجھ کو اگر کوئی قریب رگ جاں ہے
جو دل
کے سمندر سے ابھرتا ہے یقیں ہے
جو
ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے گماں ہے
پھولوں
پہ گھٹاؤں کے تو سائے نہیں انورؔ
آوارۂ
گلزار نشیمن کا دھواں ہے
شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے
جس کو
دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے
اس نے
پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے
اور
مجھے شوق ملاقات لیے پھرتا ہے
شاخچہ
ٹوٹ چکا کب کا شجر سے لیکن
اب
بھی کچھ سوکھے ہوئے پات لیے پھرتا ہے
سوچئے
جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے
اپنے
سائے کو بھی جو سات لیے پھرتا ہے
آسماں
اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آدمی
اپنے خیالات لیے پھرتا ہے
پرتو
مہر سے ہے چاند کی جھلمل انورؔ
اپنے
کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے
اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے
وہ
ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے
کواڑ
گرچہ مقفل تھے اس حویلی کے
مگر
فقیر گزرتے رہے صدا کرتے
ہمیں
قرینۂ رنجش کہاں میسر ہے
ہم
اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلا کرتے
تری
جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا
ہنر
کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے
تجھے
نہیں ہے ابھی فرصت کرم نہ سہی
تھکے
نہیں ہیں مرے ہاتھ بھی دعا کرتے
انہیں
شکایت بے ربطی سخن تھی مگر
جھجک
رہا تھا میں اظہار مدعا کرتے
چقیں
گری تھیں دریچوں پہ چار سو انورؔ
نظر
جھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے
اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے
دل
میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے
سر
بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف ہے تو بھی
تو نے
کس دن پہ یہ تقریب اٹھا رکھی ہے
دل
سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ
اب برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
آئنہ
دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے
خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے
جیسے
تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے
یہ
گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے
مطمئن
مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری
یہ
مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے
گوہر
اشک سے خالی نہیں آنکھیں انورؔ
یہی
پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے
درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ
کچھ
نہ کچھ میری وفاؤں کا صلا دے جاؤ
یوں
نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ سکوں فرقت میں
میری
راتوں کو ستاروں کی ضیا دے جاؤ
ایک
بار آؤ کبھی اتنے اچانک پن سے
نا
امیدی کو تحیر کی سزا دے جاؤ
دشمنی
کا کوئی پیرایۂ نادر ڈھونڈو
جب
بھی آؤ مجھے جینے کی دعا دے جاؤ
وہی
اخلاص و مروت کی پرانی تہمت
دوستو
کوئی تو الزام نیا دے جاؤ
کوئی
صحرا بھی اگر راہ میں آئے انورؔ
دل یہ
کہتا ہے کہ اک بار صدا دے جاؤ
میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غم خواروں میں
کل جو
شامل تھے ترے حاشیہ برداروں میں
زہر
ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو
زندگی
ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں
کتنے
آنسو ہیں کہ پلکوں پہ نہیں آ سکتے
کتنی
خبریں ہیں جو چھپتی نہیں اخباروں میں
اب تو
دریا کی طبیعت بھی ہے گرداب پسند
اور
وہ پہلی سی سکت بھی نہیں پتواروں میں
آپ کے
قصر کی جانب کوئی دیکھے توبہ
جرم
ثابت ہو تو چن دیجئے دیواروں میں
آج
تہذیب کے تیور بھی ہیں کاروں جیسے
دفن
ہو جائے نہ کل اپنے ہی انباروں میں
اپنی
آواز کو بھی کان ترستے ہیں مرے
جنس
گفتار لیے پھرتا ہوں بازاروں میں
تہمتیں
حضرت انساں پہ نہ دھرئیے انورؔ
دشمنی
ہے کہ چلی آتی ہے تلواروں میں
بس یوں ہی اک وہم سا ہے واقعہ ایسا نہیں
آئنے
کی بات سچی ہے کہ میں تنہا نہیں
بیٹھیے
پیڑوں کی اترن کا الاؤ تاپئے
برگ
سوزاں کے سوا درویش کچھ رکھتا نہیں
اف
چٹخنے کی صدا سے کس قدر ڈرتا ہوں میں
کتنی
باتیں ہیں کہ دانستہ جنہیں سوچا نہیں
اپنی
اپنی سب کی آنکھیں اپنی اپنی خواہشیں
کس
نظر میں جانے کیا جچتا ہے کیا جچتا نہیں
چین
کا دشمن ہوا اک مسئلہ میری طرف
اس نے
کل دیکھا تھا کیوں اور آج کیوں دیکھا نہیں
اب
جہاں لے جائے مجھ کو جلتی بجھتی آرزو
میں
بھی اس جگنو کا پیچھا چھوڑنے والا نہیں
کیسی
کیسی پرسشیں انورؔ رلاتی ہیں مجھے
کھیتیوں
سے کیا کہوں میں ابر کیوں برسا نہیں
بس اب ترک تعلق کے بہت پہلو نکلتے ہیں
سو اب
یہ طے ہوا ہے شہر سے سادھو نکلتے ہیں
ہم آ
نکلے عجب سے ایک صحرائے محبت میں
شکاری
کے تعاقب میں یہاں آہو نکلتے ہیں
یہ اک
منظر بہت ہے عمر بھر حیران رہنے کو
کہ
مٹی کے مساموں سے بھی رنگ و بو نکلتے ہیں
ضمیر
سنگ تجھ کو تیرا پیکر ساز آ پہنچا
ابھی
آنکھیں ابھرتی ہیں ابھی آنسو نکلتے ہیں
کوئی
نادر خزینہ ہے مرے دست تصرف میں
جھپٹنے
کو در و دیوار سے بازو نکلتے ہیں
میں
اپنے دشمنوں کا کس قدر ممنون ہوں انورؔ
کہ ان
کے شر سے کیا کیا خیر کے پہلو نکلتے ہیں
رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی
اب نہ
دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی
وقت
گزرا ہے پہ موسم نہیں بدلا یارو
ایسی
گردش ہے زمیں خود بھی دہائی دے گی
یہ
دھندلکا سا جو ہے اس کو غنیمت جانو
دیکھنا
پھر کوئی صورت نہ سجھائی دے گی
دل جو
ٹوٹے گا تو اک طرفہ چراغاں ہوگا
کتنے
آئینوں میں وہ شکل دکھائی دے گی
ساتھ
کے گھر میں ترا شور بپا ہے انورؔ
کوئی
آئے گا تو دستک نہ سنائی دے گی
اگلے دن کچھ ایسے ہوں گے
چھلکے
پھلوں سے مہنگے ہوں گے
ننھی
ننھی چیونٹیوں کے بھی
ہاتھی
جیسے سائے ہوں گے
بھیڑ
تو ہوگی لیکن پھر بھی
سونے
سونے رستے ہوں گے
پھول
کھلیں گے تنہا تنہا
جھرمٹ
جھرمٹ کانٹے ہوں گے
لوگ
اسے بھگوان کہیں گے
جس کی
جیب میں پیسے ہوں گے
ریت
جلے گی دھوپ میں انورؔ
برف
پہ بادل چھائے ہوں گے
مجھے خود سے بھی کھٹکا سا لگا تھا
مرے
اندر بھی اک پہرا لگا تھا
ابھی
آثار سے باقی ہیں دل میں
کبھی
اس شہر میں میلہ لگا تھا
جدا
ہوگی کسک دل سے نہ اس کی
جدا
ہوتے ہوئے اچھا لگا تھا
اکٹھے
ہو گئے تھے پھول کتنے
وہ
چہرہ ایک باغیچہ لگا تھا
پئے
جاتا تھا انورؔ آنسوؤں کو
عجب
اس شخص کو چسکا لگا تھ
اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے
دل
میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے
سر
بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف ہے تو بھی
تو نے
کس دن پہ یہ تقریب اٹھا رکھی ہے
دل
سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ
اب برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
آئنہ
دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے
خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے
جیسے
تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے
یہ
گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے
مطمئن
مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری
یہ
مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے
گوہر
اشک سے خالی نہیں آنکھیں انورؔ
یہی
پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے
کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی
آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے
میں
تو قائم ہوں ترے غم کی بدولت ورنہ
یوں
بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے
شعر
لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تو
ملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے
تیرے
رستے کا جو کانٹا بھی میسر آئے
میں
اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے
سوچتا
ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا
اپنے
سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے
اس کی
تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کے
پاؤں
کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے
آخری
بات مجھے یاد ہے اس کی انورؔ
جانے
والے کو گلے سے نہ لگاؤں اپن
اس حسیں کے خیال میں رہنا
عالم
بے مثال میں رہنا
کب
تلک روح کے پرندے کا
ایک
مٹی کے جال میں رہنا
اب
یہی نغمگی کی ندرت ہے
سر
میں رہنا نہ تال میں رہنا
بے
اثر کر گیا ہے واعظ کو
ہر
گھڑی قیل و قال میں رہنا
انورؔ
اس نے نہ میں نے چھوڑا ہے
اپنے
اپنے خیال میں رہنا
0 Comments
Dear Visitors please don't send bad comment and don't share spam links.thank you for your support.