Shabnam Shakeel

 Shabnam Shakeel

Shabnam Shakeel
 Shabnam Shakeel



Ab Mujhko Rukhsat hona hai ab mera har singhaar karo

Kyun der lagati ho sakhiyo jaldi se mujhe tyyar karo

 Shabnam Shakeel

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

Chalte Rahy to konsa apna kamal tha

Ye wo safar tha jis main theharna Muhaal tha

 Shabnam Shakeel

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

چلتے رہے تو کون سا اپنا کمال تھا

یہ وہ سفر تھا جس میں ٹھہرنا محال تھ

شبنم شکیل

 

اب مجھ کو رخصت ہونا ہے اب میرا ہار سنگھار کرو

کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو جلدی سے مجھے تیار کرو

شبنم شکیل

 

ذوق نظر کو اذن نظارہ نہ مل سکا

ذوق نظر کو اذن نظارہ نہ مل سکا

تنہا کبھی وہ انجمن آرا نہ مل سکا

ہم پر تو جلد کھل گیا ساحل کا سب بھرم

اچھے رہے وہ جن کو کنارہ نہ مل سکا

یک طرفہ رابطہ ہی نبھانا پڑا ہمیں

ان کی طرف سے کوئی اشارہ نہ مل سکا

تم بھی قصوروار نہیں قصہ مختصر

میرا تمہارے ساتھ ستارہ نہ مل سکا

شہروں کی خاک چھانی کھنگالے ہیں دشت و در

لیکن ہمیں سراغ ہمارا نہ مل سکا

میں بھی تھی خود پسند نہیں اس میں شک کوئی

اکثر تو پر مزاج تمہارا نہ مل سکا

اے کاش ساتھیوں سے وہ اپنے کبھی کہے

شبنمؔ سا کوئی مجھ کو دوبارہ نہ مل سکا

شبنم شکیل

 

یہ سلسلے بھی رفاقت کے کچھ عجیب سے ہیں

یہ سلسلے بھی رفاقت کے کچھ عجیب سے ہیں

کہ دور دور کے منظر بہت قریب سے ہیں

قبائے زر ہے انا کی اگرچہ زیب بدن

مگر یہ اہل ہنر دل کے سب غریب سے ہیں

یہاں تو سب ہی اشاروں میں بات کرتے ہیں

عجیب شہر ہے اس کے مکیں عجیب سے ہیں

میں زندگی میں مروں گی نہ جانے کتنی بار

مجھے خبر ہے کہ رشتے مرے صلیب سے ہیں

یہ اور بات کہ اس کی چہک سے کھلتا ہے

ہزار شکوے مگر گل کو عندلیب سے ہیں

اسے تو اپنی خبر بھی یہاں نہیں ملتی

امیدیں تم کو بہت جس الم نصیب سے ہیں

شبنم شکیل

 

وہ تو آئینہ نما تھا مجھ کو

وہ تو آئینہ نما تھا مجھ کو

کس لیے اس سے گلہ تھا مجھ کو

دے گیا عمر کی تنہائی مجھے

ایک محفل میں ملا تھا مجھ کو

تا مجھے چھوڑ سکو پت جھڑ میں

اس لیے پھول کہا تھا مجھ کو

تم ہو مرکز میری تحریروں کا

تم نے اک خط میں لکھا تھا مجھ کو

میں بھی کرتی تھی بہاروں کی تلاش

ایک سودا سا ہوا تھا مجھ کو

اب پشیمان ہیں دنیا والے

خود ہی مصلوب کیا تھا مجھ کو

اب دھڑکتا ہے مگر صورت دل

زخم اک تم نے دیا تھا مجھ کو

شبنم شکیل

 

وہاں بھی زہر زباں کام کر گیا ہوگا

وہاں بھی زہر زباں کام کر گیا ہوگا

کہ آدمی تھا وہ باتوں سے ڈر گیا ہوگا

تھی میں بھی اس پہ ہنسی مل کے اس جہاں کے ساتھ

یہ سن کے شرم سے شاید وہ مر گیا ہوگا

ہزار بار سنا پھر بھی دل نہیں مانا

کہ میرے پیار سے دل اس کا بھر گیا ہوگا

نئے مکین ہیں اب واں اسے خبر کب تھی

بڑے خلوص سے وہ میرے گھر گیا ہوگا

کوئی دریچہ کھلا رہ گیا تھا آندھی میں

مرا وجود یقیناً بکھر گیا ہوگا

وہ جانتا تو ہے محفل کے بھی سبھی آداب

جو دیکھ کر نہیں اٹھا تو ڈر گیا ہوگا

نہ ہو جو سطح پہ ہلچل تو اس سے یہ نہ سمجھ

چڑھا ہوا تھا جو دریا اتر گیا ہوگا

شبنم شکیل

  

ان کی شرمندۂ احسان سی ہو جاتی ہے

ان کی شرمندۂ احسان سی ہو جاتی ہے

یہ نظر مل کے پشیمان سی ہو جاتی ہے

تم نے چھینا ہے مرے دل کا دیا آنکھ کی لو

ان اندھیروں میں بھی پہچان سی ہو جاتی ہے

آنکھ کا شہر ہو آباد تو دل کی بستی

آپ ہی آپ سے ویران سی ہو جاتی ہے

ان کو پہچان کے بھی تازہ ستم پر شبنمؔ

اتنی نادان ہے حیران سی ہو جاتی ہے

شبنم شکیل

 

تم سے رخصت طلب ہے مل جاؤ

تم سے رخصت طلب ہے مل جاؤ

کوئی اب جاں بلب ہے مل جاؤ

لوٹ کر اب نہ آ سکیں شاید

یہ مسافت عجب ہے مل جاؤ

دل دھڑکتے ہوئے بھی ڈرتا ہے

کتنی سنسان شب ہے مل جاؤ

اس سے پہلے نہیں ہوا تھا کبھی

دل کا جو حال اب ہے مل جاؤ

خواہشیں بے سبب بھی ہوتی ہیں

کیا کہیں کیا سبب ہے مل جاؤ

کون اب اور انتظار کرے

اتنی مہلت ہی کب ہے مل جاؤ

شبنم شکیل


تنہا کھڑے ہیں ہم سر بازار کیا کریں

تنہا کھڑے ہیں ہم سر بازار کیا کریں

کوئی نہیں ہے غم کا خریدار کیا کریں

اے کم نصیب دل تو مگر چاہتا ہے کیا

سنیاس لے لیں چھوڑ دیں گھر بار کیا کریں

الجھا کے خود ہی زیست کے اک ایک تار کو

خود سے سوال کرتے ہیں ہر بار کیا کریں

اک عمر تک جو زیست کا حاصل بنی رہیں

پامال ہو رہی ہیں وہ اقدار کیا کریں

ہے پوری کائنات کا چہرہ دھواں دھواں

غزلوں میں ذکر یار طرح دار کیا کریں

اس دوہری زندگی میں بھی لاکھوں عذاب ہیں

دنیا سے دل ہے برسر پیکار کیا کریں

شبنم شکیل

 

سمٹ نہ پائے کہ ہر سو بکھر گئے تھے ہم

سمٹ نہ پائے کہ ہر سو بکھر گئے تھے ہم

ہجوم یاس میں کیا سوچ کر گئے تھے ہم

ہوئے تھے راکھ تو کچھ راستہ ہی ایسا تھا

دبی تھی آگ زمیں میں جدھر گئے تھے ہم

یہ کیا کہ پھر سے یہاں حکمرانئ شب ہے

حصار شب تو ابھی توڑ کر گئے تھے ہم

وہ کیا خوشی تھی کہ برباد کر گئی سب کچھ

وہ کیسا غم تھا کہ جس سے سنور گئے تھے ہم

ملی تھیں پھر بھی وہ دیواریں اجنبی بن کر

اگرچہ شام سے پہلے ہی گھر گئے تھے ہم

گھرے تھے مصلحت اندیشیوں میں پوری طرح

جو دل کا ساتھ نہ دیتے تو مر گئے تھے ہم

شبنم شکیل

 

سامنے اک بے رحم حقیقت ننگی ہو کر ناچتی ہے

سامنے اک بے رحم حقیقت ننگی ہو کر ناچتی ہے

اس کی آنکھوں سے اب میری موت کی خواہش جھانکتی ہے

جسم کا جادو اس دنیا میں سر چڑھ کر جب بولتا ہے

روح مری شرمندہ ہو کر اپنا چہرہ ڈھانپتی ہے

اس کی جھولی میں سب کھوٹے سکے ڈالے جائیں گے

جانتی ہے یہ اندھی بھکارن پھر بھی دن بھر مانگتی ہے

میرا خون پیا تو اس کو تازہ لہو کی چاٹ لگی

اب وہ ناگن اپنی زباں سے اپنا لہو بھی چاٹتی ہے

اب کی بار اے بزدل قسمت کھل کر میرے سامنے آ

کیوں اک دھچکا روز لگا کر باقی کل پر ٹالتی ہے

ماضی کی تربت سے نکل آتی ہے کسی کی یاد کی لاش

میری سوچ مری دشمن ہے روز مصیبت ڈالتی ہے

صحرا کا بادل دو بوندیں برسا کر اڑ جاتا ہے

پیاسی بنجر بانجھ زمیں کچھ اور زیادہ ہانپتی ہے

اب تک سوئی ہوئی تھی وہ آسائش کے گہوارے میں

انگڑائی سی لے کر شبنمؔ آج انا کیوں جاگتی ہے

شبنم شکیل

 



Post a Comment

0 Comments