Josh Malihabadi

 Josh Malihabadi Poetry in urdu

 

Josh Malihabadi
Josh Malihabadi

Arz o Sama ko Saaghir o Pe'mana kar dia

Rundon ne Kaiyenaat Me'khana kar dia

Dunya ne har afsana haqiqat bana dia

Hum ne Haqiqton ko bhi afsana kar dia


 ارض وسماکو ساغروپیمانہ کردیا

رندوں نے کائنات کو میخانہ کردیا

دنیا نے ہر افسانہ حقیقت بنادیا

ہم نے حقیقتوں کو بھی افسانہ کردیا


اللہ کرے _____________ وہ صنمِ دشمنِ ایماں

مچلےکسی شب جوش کے پہلو میں دوبارہ

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی

جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

اے شخص! اگر جوشؔ کو تو ڈھونڈنا چاہے

وہ پچھلے پہر حلقہء عرفاں میں ملے گا

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا

جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

ارض و سما کو ساغر و پیمانہ کر دیا

رندوں نے کائنات کو میخانہ کر دیا

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

گُزر رہا ہے ادھر سے تو مسکراتا جا

چراغِ مجلسِ روحانیاں جلاتا جا

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

ہاں آسمان اپنی بٙلٙندی سے ہوشیار

اب سر اُٹھا رہے ہیں کسی آستاں سے ہم

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

وہاں پانا جو شورِ ہاؤ ہُو تو میری جانب سے

مغاں سے بندگی کہنا ۔۔۔ مُغَنی سے دعا کہنا

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 


اس نے وعدہ کیا ہے آنے کا

رنگ دیکھو غریب خانے کا

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

میرے رونے کا جس میں قصہ ہے

عمر کا بہترین حصہ ہے

حضرت جوشؔ ملیح آبادی


 

اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے

جو دیکھے ہے کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

حد ہے اپنی طرف نہیں میں بھی

اور ان کی طرف خدائی ہے

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

ہٹ کہ اب سعی و عمل کی راہ میں آتا ہو ں میں

خلق واقف ہے کہ جب آتا ہوں چھا جاتا ہوں میں

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

اب دل کا سفینہ کیا ابھرے طوفاں کی ہوائیں ساکن ہیں

اب بحر سے کشتی کیا کھیلے موجوں میں کوئی گرداب نہیں

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

اب تک نہ خبر تھی مجھے اجڑے ہوئے گھر کی

وہ آئے تو گھر بے سر و ساماں نظر آیا

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

اب اے خدا عنایت بے جا سے فائدہ

مانوس ہو چکے ہیں غم جاوداں سے ہم

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

آڑے آیا نہ کوئی مشکل میں

مشورے دے کے ہٹ گئے احباب

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا

جب چلی سرد ہوا ۔۔۔۔ میں نے تجھے یاد کیا

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

بھٹکے ہوئے انسان کو دیکھو تو ذرا

اِس عقل کے نادان کو دیکھو تو ذرا

کس طرح اکڑ اکڑ کے کے رکھتا ہے قدم

دو پاؤں کے حیوان کو دیکھو تو ذرا

حضرت جوشؔ ملیح آبادی


 

ہر صاحبِ جوہر کو سُبک سر کردے

فطرت کو زبوں کر کے زبوں تر کردے

افلاس کو کھینچتا ہے ایماں کی طرف

کمبخت مُسلسل ہو تو کافر کر دے

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

 

گرا نہ آنکھ سے آنسو فریبِ قسمت پر

سکون جس سے ہو وہ اضطراب پیدا کر

مژہ میں روک لے آنسو کے دل ہو آئینہ

ستارے توڑ دے اور آفتاب پیدا کر

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

خودبین و خوداٌگاہ کیا ہے کس نے؟

ایمان کا بد خواہ کیا ہے کس نے؟

انسان کو شیطاں نے کیا ہے گمراہ

شیطان کو گمراہ کیا ہے کس نے؟

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

 

 

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا

جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وە کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوە

جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے سونے نہ دیا

جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

اسکا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد

اسکا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا

اتنا معصوم ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی

جھک کے میں نے کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا ؟

میری ہر سانس ہے اس بات کی شاھد اے موت

میں نے ہر لطف کے موقعہ پہ تجھے یاد کیا

مجھکو تو ہوش نہیں تجھ کو خبر ہو شاید

لوگ کہتے ہیں کہ تو نے مجھے برباد کیا

وە تجھے یاد کرے جس نے بھلایا ہو تجھے

ہم نے تجھ کو بھلایا نہ کبھی یاد کیا

کچھ نہیں اس کے سوا جوش حریفوں کا کلام

وصل نے شاد کیا ہجر نے ناشاد کیا

 

 

جس سے ارمانوں میں بجلی آگ طوفانوں میں ہے

اے حکومت! کیا وہ شے ان میز کے خانوں میں ہے؟

بند پانی میں صفینہ کھے رہی ہے کس لئے

تو مرے گھر کی تلاشی لے رہی ہے کس لئے

گھر میں درویشوں کے کیا رکھا ہے بدنہاد

آ، میرے دل کی تلاشی لے کہ بر آئے مراد

جس کے اندر دہشتیں پر ہول طوفانوں کی ہیں

لرز افگن آندھیاں تیرہ بیابانی کی ہیں

جس کے اندر ناگ ہیں اے دشمن ہندوستاں

شیر جس میں ہونکتے ہیں کوندتی ہیں بجلیاں

چھوٹتی ہیں جس سے نبضیں افسرو سرہنگ کی

جس میں ہے گونجی ہوئی آواز طبلہ جنگ کی

جس کے اندر آگ ہے دنیا پہ چھا جائے وہ آگ

موت جس میں دیکھتی ہے منہ اس آئینہ کو دیکھ

میرے گھر کو دیکھتی کیا ہے مرے سینے کو دیکھ

حضرت جوشؔ ملیح آبادی

 

اگر انسان ہوں، دنیا کو حیراں کر کے چھوڑوں گا

میں ہر ناچیز ذرّے کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا

تری اِس اُلفت کی سوگند، اے لیلائے رنگینی

کہ ارضِ خار و خس کو سُنبلستاں کر کے چھوڑوں گا

وہ پنہاں قوّتیں جو مِل کے زک دیتی ہیں دُنیا کو

اُنہیں آپس ہی میں دست و گریباں کر کے چھوڑوں گا

سرِ تقلید کو مغزِ تفکر سے جِلا دے کر

چراغِ مردہ کو مہرِ درخشاں کر کے چھوڑوں گا

شعارِ تازہ کو بخشوں گا آب و رنگِ جمیعت

رسوم کُہنہ کی محفل کو ویراں کر کے چھوڑوں گا

چراغِ اجتہادِ نَو بہ نَو کی جلوہ ریزی سے

سرِ راہِ خرد مندی چراغاں کر کے چھوڑوں گا

مُسلطّ ہیں ازل کے روز سے جو ابنِ آدم پر

میں اُن اوہام کو سردر گریباں کر کے چھوڑوں گا

ترے اس پیچ و خم کھاتے دُھویں کو شمع حق بینی

فرازِ عقل پر ابرِ خراماں کر کے چھوڑوں گا

جو انساں، آج سنگ و خشت کو معبود کہتا ہے

اُس انساں کو الوہیت بداماں کر کے چھوڑوں گا

قناعت جس نے کر لی ہے عناصر کی غلامی پر

میں اُس کو کِرد گارِ بادوباراں کر کے چھوڑوں گا

قسم کھاتا ہوں اے کوہِ الم! دستِ زلیخا کی

کہ داماں کو ترے یوسف کا داماں کر کے چھوڑوں گا

پکاروں گا کلیم نو کو طُورِ عصرِ حاضر سے

جو کچھ کہہ دوں گا اُس کو دین و ایماں کر کے چھوڑوں گا

مری حکمت، بشر کو دعوتِ نَو دے کے دم لے گی

میں اِس بھٹکے ہوئے انساں کو انساں کر کے چھوڑوں گا

اگر یہ کُفر ہے جو کچھ زباں پر میری جاری ہے

تو میں اِس کفر کو گلبانگِ عرفاں کر کے چھوڑوں گا

اگر عصیاں ہی پر موقوف ہے انساں کی بیداری

تو میں دُنیا کو غرقِ بحرِ عصیاں کر کے چھوڑوں گا

 

مولانا مودودیؒ ایک بار بیرونِ سفر کے سلسلے میں کراچی کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھے ۔ اتفاق سے اُسی ہوٹل میں جوش ملیح آبادی بھی قیام کے لیے آ گئے ۔ انہیں پتہ چلا کہ مولانا مودودیؒ بھی اسی ہوٹل میں ٹہرے ہوئے ہیں ۔ جوش مولانا مودودیؒ کے پاس آئے اور کہا کہ " مولانا میری خواہش ھے کہ آپ میرے برابر والے کمرے میں آ جائیں ، خوب نشست جمے گی اور احباب کو بھی آسانی ھو گی ۔ "

مولانا مودودیؒ نے فرمایا : " جوش صاحب ، میں آپ کے پڑوس میں آ جاؤں یا آپ میرے پڑوس میں آ جائیں ، کوئی ایک تو ضرور بدنام ھو گا ۔ "

 

 

جوش ___ فراق ___ اور یگانہ چنگیزی کی ایک نایاب تصویر

فیس بک پر موجود ایک صاحب (ظفر خان) کا کہنا ہے کہ

ایک معروف شاعر نے اپنی آب بیتی میں یہ قصہ بڑے فخر سے لکھ رکھا ہے کہ ایک بار کسی مشاعرے میں جوش اور فراق موجود تھے اور یہ بھی وہاں پہنچے۔ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں آغازِ شباب میں دیکھنے دکھانے کی شے ہوا کرتا تھا۔ ۔ تو یہ صاحب وہاں پہنچے، مشاعرہ سنا ، پڑھا۔ شام کو جوش اور فراق نے الگ الگ ان کو اپنے کمرے میں آنے کی دعوت دی۔ کہ ہمارے پاس آو ہم تمہیں بڑا شاعر بنا دیں گے۔ لکھتے ہیں خدا نے اس شام خیر کی ورنہ ان دونوں کے ہاتھوں انڈیا کا بڑا شاعر بن جاتا۔

فراق گورکھپوری سے کسی نے پوچھا: بحیثیت شاعر آپ اور جوش صاحب میں کیا فرق ہے؟

فراق نے اپنی بڑی بڑی وحشت ناک آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا: جوش موضوع سے متاثر ہوتا ہے اور میں موضوع کو متاثر کرتا ہوں۔

 

1952ء یا 1953ء میں جوش حیدرآباد آئے اور پہلے کُل ہند مشاعرے میں اپنی بدنام زمانہ نظم "ہائے جوانی ہائے زمانہ" سنائی۔ کہا جاتا ہے کہ مشاعرہ میں موجود تمام خواتین خاموش احتجاج کرتی ہوئیں مشاعرہ گاہ سے باہر چلی گئی تھیں۔

انکا کلام 1995 تک اردو ٹیکسٹ بک بورڈ کے زیر سایہ سلیبس میں شامل رہا لیکن اچانک جوش اردو سلیبس سے ہٹا دئیے گئے

 

جن دنوں جوش ملیح آبادی ماہ نامہ ’’ آجکل ‘‘ کے مدیر اعلیٰ تھے ان کے دفتر میں اکثر شاعروں ، ادیبوں اور مداحوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی ۔ ایک مرتبہ پنڈت ہری چند اختر ، عرش ملسیانی ، بسمل سعیدی ، جگن ناتھ آزاد ، بیدی صاحب اور مانی جائسی ، جوش صاحب کے پاس بیٹھے تھے ۔ ادھر ادھر کی باتیں ہورہی تھیں کہ پنڈت جی نے بیدی صاحب کو پنجابی زبان میں مخاطب کیا ۔ جوش صاحب نے فوراً ٹوک کر کہا کہ پنڈت جی یہ تو جہنم کی زبان ہے ۔ بیدی صاحب نے فوراً گزارش کی کہ جوش صاحب آپ بھی ابھی سے یہ زبان سیکھنا شروع کردیں تاکہ آپ کو آخری جائے قیام میں تکلیف نہ ہو ۔

علی گڑھ نمائش کے مشاعرہ میں جوش صاحب ، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ، ہری چند اختر اور کئی اور شعرا شریک ہوئے ۔ ایک خوبرو نوجوان شاعر جب کلام سنانے مائک پر آئے تو اس وقت جوش صاحب مائک کے عین پاس بیٹھے تھے ۔ اس نوجوان نے از راہ ادب جوش صاحب سے کہا کہ قبلہ معافی چاہتا ہوں ، میری پشت آپ کی جانب ہے ۔ جوش صاحب تو خاموش رہے مگر سامعین میں سے ایک زوردار آواز آئی کہ برخوردار غم نہ کرو جوش صاحب عین صحیح مقام پر تشریف فرما ہیں ۔

ایک درویش مولانا وضع کے شاعر کسی شاعر سے کہہ رہے تھے ۔ جوش ایسے ملحد ، بے دین اور بے اصول آدمی کا ہندوستان سے پاکستان چلے جانا ہی بہتر تھا ۔ خس کم جہاں پاک ، کسی دوسرے شاعر نے مولانا کو ٹوکتے ہوئے کہا : جوش صاحب کے مستقل طور پر پاکستان چلے جانے سے تو یہاں خس کی کمی واقع ہوگئی ، لیکن مولانا اگر آپ پاکستان ہجرت فرما جائیں تو ہندوستان میں کیا چیز کم ہوجائے گی ؟ ’’ خاشاک ‘‘ کنور مہندر سنگھ بیدی نے دونوں کی گفتگو سن کر نہایت برجستگی سے کہا ۔

جوش ملیح آبادی ایک بار گرمی کے موسم میں مولانا ابو الکلام آزاد سے ملاقات کی غرض سے ان کی کوٹھی پر پہنچے وھاں ملاقاتیوں کا ایک جم غفیر پہلے سے موجود تھا کافی دیر تک انتظار کے بعد بھی ملاقات کیلۓ باری نہ آئی تو انھوں نے اکتا کر ایک چٹ پر یہ شعر لکھ کر چپراسی کے ہاتھ مولانا کی خدمت میں بھجوا دیا

نامناسب ہے خون کھولانا

پھر کسی اور وقت مولانا

مولانا نے یہ شعر پڑھا تو زیرلب مسکراۓ اور فی الفور جوش صاحب کو اندر طلب کر لیا۔ ۔ ۔

ہاشم رضا زیدی صاحب پاکستان کے ایک معروف بیوروکریٹ تھے ایک مرتبہ جوش ان سے کسی کام کے سلسلے میں ملاقات کو گئے سیکرٹری نے کہا صاحب میٹنگ میں ہیں

جوش صاحب نے ایک چٹ لی اور لکھا

ہاشم رضا میں "شمر" ہے سارا چھپا ہوا

زیدی میں چاروں حرف ہیں شامل یزید کے

یہ پرچی دی اور چلے آئے۔ ۔ ۔

 

 

جوش ملیح آبادی ایک بار گرمی کے موسم میں مولانا ابو الکلام آزاد سے ملاقات کی غرض سے ان کی کوٹھی پر پہنچے وھاں ملاقاتیوں کا ایک جم غفیر پہلے سے موجود تھا کافی دیر تک انتظار کے بعد بھی ملاقات کیلۓ باری نہ آئی تو انھوں نے اکتا کر ایک چٹ پر یہ شعر لکھ کر چپراسی کے ہاتھ مولانا کی خدمت میں بھجوا دیا

نامناسب ہے خون کھولانا

پھر کسی اور وقت مولانا

مولانا نے یہ شعر پڑھا تو زیرلب مسکراۓ اور فی الفور جوش صاحب کو اندر طلب کر لیا۔ ۔ ۔

ہاشم رضا زیدی صاحب پاکستان کے ایک معروف بیوروکریٹ تھے ایک مرتبہ جوش ان سے کسی کام کے سلسلے میں ملاقات کو گئے سیکرٹری نے کہا صاحب میٹنگ میں ہیں

جوش صاحب نے ایک چٹ لی اور لکھا

ہاشم رضا میں "شمر" ہے سارا چھپا ہوا

زیدی میں چاروں حرف ہیں شامل یزید کے

یہ پرچی دی اور چلے آئے۔ ۔ ۔

 

 

ایک بار آزاد ہند ہوٹل میں ایک مخصوص شعری نشست تھی جگر اور جوش بھی اس میں شریک تھے جگر نے جیسے ہی غزل پڑھنی شروع کی، جوش نے ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا اور اس طرح کے ایک شعر پر باریک آواز سے "اوئی" کہا، دوسرے شعر پر "اوئی اللہ" اور تیسرے شعر پر نسوانی آواز میں "اللہ میں مر گئ" یہ دراصل طنز تھا غزل کے نسوانی انداز پر

جگر برداشت کرتے ہوۓ خاموش رہے لیکن جب جوش کسی طرح بند نہ ہوۓ تو مجبورا" جوش کی طرف مڑے اور مسکرا کر فرمایا "ماشاءاللہ خوب ترقی کی ہے"

یہ جوش کی ترقی پسندی کی طرف بھی اشارہ تھا جوش سن کر بڑے خفیف ہوۓ اور پوری محفل قہقہہ زار بن گئ

 

جوش سے ایک بار پوچھا گیا کہ : آپ کی شاعری میں طمطراق لہجہ اور جوش تو ہے لیکن درد و کسک نہیں ہے۔

جوش نے جواب دیا : میں نے کُل 18 عشق کئے اور کسی میں بھی ناکام نہیں ہوا تو بھلا شاعری میں درد کہاں سے آتا؟

 

جوش صاحب کو سفارشیں کرنے کی خوب عادت تھی ہر ایک کی سفارش کرتے تھے ایک ہی جگہ کے لیے کئی کئی لوگوں کی سفارشیں کرتے تھے

ایک لطیفہ مشہور ہے کہ جوش صاحب کسی کو ساتھ لے کر گئے اور اس کی سفارش کی متعلقہ افسر نے کہا کہ اس جگہ کے لیے آپ پہلے ہی ایک آدمی کی سفارش کر چکے ہیں

جوش صاحب نے کہا: اب تو اسی کو رکھیے، کیونکہ یہ مردود مجھے ساتھ لے کر آیا ہے

 

جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اردو میں خط لکھا۔لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں دیا۔جواب میں جوش نے انہیں لکھا:جنابِ والا،میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا۔لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے.

 

ایک مولانا کے جوش صاحب کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے تو جوش صاحب نے وجہ پوچھی۔کہنے لگے:کیا بتاؤں جوش صاحب،پہلے ایک گردے میں پتھری تھی اس کا آپریشن ہوا۔اب دوسرے گردے میں پتھری ہے۔

میں سمجھ گیا۔جوش صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔الله تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔

 

کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔اکثر شعراء آدابِ محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے لیکن جوش صاحب پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعے پر دادو تحسین کی بارش کیے جا رہے تھے۔گوپی ناتھ امن نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: قبلہ، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟

جوش صاحب نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا: منافقت۔اور پھر داد دینے میں مصروف ہو گئے۔

 

ایک بار جوش ملیح آبادی الٰہ آباد یونیورسٹی میں گئے۔ ادبی تقریب میں ڈائس پر جوش علاوہ فراق بھی موجود تھے۔جوش نے اپنی طویل نظم حرفِ آخر کا ایک اقتباس پڑھا۔اس میں تخلیقِ کائنات کی ابتداء میں شیطان کی زبانی کچھ شعر ہیں۔جوش شیطان کے اقوال پر مشتمل کچھ اشعار سنانے والے تھے کہ فراق نے سامعین سے کہا: سنیے حضرات، شیطان کیا بولتا ہے؟ اور اس کے بعد جوش کو بولنے کا اشارہ کیا

عبدالحمید عدم کو کسی صاحب نے ایک بار جوش سے ملایا اور کہا: یہ عدم ہیں۔

عدم کافی جسامت والے آدمی تھے۔ جوش نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے: عدم یہ ہے تو وجود کیا ہو گا؟

 

ایک دلچسپ واقعہ جوش صاحب سے منسوب ہے کہ "ایک مرتبہ جوش ملیح آبادی اپنے گھر میں چند بے تکلف دوستوں کے ساتھ اپنی محبوباؤں کا ذکر کر رہے تھے ذکر کرتے کرتے وہ اتنے جذباتی ہو گیۓ کہ ان کی آنکھیں بھیگ گئیں ــــــــــــــــ اسی دوران جوش صاحب کی بیگم کمرے میں داخل ہوئیں اور رونے کا سبب پوچھا ؟

تو جوش صاحب نے کہا کہ کچھ نہیں، ــــــــــــــــــــ بس بیٹھے بیٹھے اماں یاد آ گیئں"

 

جوش ملیح آبادی ایک دفعہ علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے، ملاقاتی کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ علامہ اقبال کے سامنے قرآن پاک رکھا ہے اور وہ زار و قطار رو رہے ہیں۔

یہ دیکھ کر جوش نے بڑی معصومیت سے کہا۔

"علامہ صاحب، کیا کوئی وکیل قانون کی کتاب پڑھتے ہوئے بھی روتا ہے۔"

یہ سن کر علامہ ہنس پڑے

 

ایک مرتبہ جوش ملیح آبادی نے جگر صاحب کو چھیڑتے ہوۓ کہا "کیا عبرت ناک حالت ہے آپ کی، شراب نے آپ کو رند سے مولوی بنا دیا اور آپ اپنے مقام بھول بیٹھے، مجھے دیکھیۓ کہ میں ریل کے کھمبے کی طرح اپنے مقام پر آج بھی وہاں اٹل کھڑا ہوں، جہاں آج سے کئ سال پہلے تھا"

جگر صاحب نے جواب دیا "بلا شبہ آپ ریل کے کھمبے ہیں اور میری زندگی ریل گاڑی کی طرح ہے جو آپ جیسے ہر کھمبے کو پیچھے چھوڑتی ہوئی ہر مقام سے آگے اپنا مقام بناتی جا رہی ہے"

 

جوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ءکوملیح آباد میں پیدا ہوئے۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحب دیوان شاعر تھے۔

جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاح سخن لی۔ پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا۔ عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔

جوش نے حیدرآباد (دکن)، دہلی، کراچی اور اسلام آباد کئی شہروں میں زندگی گزاری۔ دو رسالوں کلیم اور آج کل کے مدیر رہے، کئی فلموں کے گانے اور مکالمے لکھے اور پاکستان آنے کے بعد اردو لغت کے مدیر رہے۔

جوش ملیح آبادی نے متعدد شعری مجموعے یادگار چھوڑے۔ اپنی خودنوشت یادوں کی برات کے نام سے تحریر کی۔ جنگل کی شہزادی، ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب، مناظر سحر، تلاشی اور فتنہ خانقاہ آپ کی مشہور نظمیں ہیں۔ حسین اور انقلاب وہ مرثیہ ہے، جس نے مرثیہ گوئی کے ایک نئے دبستان کی بنیاد رکھی۔

ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ءمیں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔

جوش نے بائیس فروری 1982ء کو اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسود ہ خاک ہوئے ۔

ان کی تاریخ وفات معروف شاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی”میں شاعر آخر الزماں ہوں اے جوش“

 

 


Post a Comment

0 Comments