Hafeez Jalandhari Poetry in Urdu
حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ء کو
جالندھر میں پیدا ہوئے۔ کوئی تعلیمی اسناد حاصل نہیں کر سکے تھے ۔ اس کمی کو ذاتی
مطالعے سے پوری کیا۔ شاعری میں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر گرامی سے اصلاح
حاصل کی۔
وہ جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی بھرتی
کیلئے پبلسٹی کے شعبے کے افسر رہے اور بھرتی ہونے پر مائل کرنے والے گیت لکھے ۔
بہاولپور سمیت کئی ریاستی درباروں سے وابستہ رہے۔ 1947ء میں وہ لاہور آ گئے۔ بعد
میں پاک فوج کے ڈائریکٹر جنرل مورال بھی رہے۔
حفیظ جالندھری گیت کے ساتھہ ساتھہ نظم
اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کا شاہنامہ اسلام چار جلدوں میں شائع
ہوا۔جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔ حفیظ جالندھری کو پاکستان کا قومی
ترانہ لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی
غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو
غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں
نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے ۔انہوں نے 21 دسمبر 1982 کو
وفات پائی۔
حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں
نغمہ بار، تلخابہ شیریں اورسوزو ساز، افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر، گیتوں کے مجموعے
ہندوستان ہمارا، پھول مالی اور بچوں کی نظمیں اور اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب
چیونٹی نامہ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔
پیش ہیں ان کے کچھہ اشعار
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا
ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو
جائے
۔۔
عرض ہنر بھی وجہ شکایات ہو گئی
چھوٹا سا منہ تھا مجھہ سے بڑی بات ہو
گئی
دیکھا جوکھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
۔۔
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم
کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا
سکے
۔۔
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
۔۔
تشکیل و تکمیل فن میں جو بھی حفیظ کا
حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات
نہیں
۔۔
سناہے اس طرف بھی جنابِ عشق گزریں گے
مری ہستی نہ اڑ جائے غبارِ کارواں
ہوکر
۔۔۔
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
۔۔۔
آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر
ناخدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا
۔۔
لے چل ہاں منجدھار میں لے چل ساحل
ساحل کیا چلنا
میری اتنی فکر نہ کر‘ میں خوگر ہوں
طوفانوں کا
۔۔
پیاروں کی موت نے مری دنیا اجاڑ دی
یاروں نے دور جا کے بسائی ہیں بستیاں
۔۔
ہاں بڑے شوق سے شمشیر کے اعجاز دکھا
ہاں بڑے شوق سے دعویٰ مسیحائی کر
۔۔
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے یارب کہ مجھے
ہر بُری بات‘ بُری بات نظر آتی ہے
۔۔۔
یہ ہے طرفہ صورت دوستی کہ نگاہ و دل
ہمہ برف ہیں
نہ وہ بادہ ہے نہ وہ ظرف ہیں نہ وہ
حرف ہیں نہ حکائتیں
۔۔
جس نے اس دور کے انسان کیے ہیں پیدا
وہی میرا بھی خدا ہو مجھے منظور نہیں
۔۔
میری چپ رہنے کی عادت جس کارن بدنام
ہوئی
اب وہ حکایت عام ہوئی ہے سنتا جا
شرماتا جا
۔۔
قافلہ کس کی پیروی میں چلے
کون سب سے بڑا لٹیرا ہے
۔۔
کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا
کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا
سرکشی نے کر دیے دھندلے نقوش بندگی،
آو سجدے میں گریں ، لوح جبیں تازہ
کریں !
تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظ کا حصّہ ہے
نصف صدی کا قصّہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں
........
آنکھ کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رکا
ایک قطرے نے ڈبویا مجھے دریا ہو کر
........
آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر
نا خدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا
........
دل کو خدا کی یاد تلے بھی دبا چکا
کم بخت پھر بھی چین نہ پائے تو کیا کروں
........
حفیظؔ اہل زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
........
کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا
چارہ گروں نے اور بھی درد دل کا بڑھا دیا
.........
او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا
کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے
رونے روتا ہے
اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو
یہی کچھ ہوتا ہے
آغاز مصیبت ہوتا ہے اپنے ہی دل کی
شامت سے
آنکھوں میں پھول کھلاتا ہے تلووں میں
کانٹے بوتا ہے
احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و
باطن ایک نہیں
لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر
روتا ہے
ملاحوں کو الزام نہ دو تم ساحل والے
کیا جانو
یہ طوفاں کون اٹھاتا ہے یہ کشتی کون
ڈبوتا ہے
کیا جانیے یہ کیا کھوئے گا کیا جانئے
یہ کیا پائے گا
مندر کا پجاری جاگتا ہے مسجد کا نمازی
سوتا ہے
خیرات کی جنت ٹھکرا دے ہے شان یہی
خودداری کی
جنت سے نکالا تھا جس کو تو اس آدم کا
پوتا ہے
ان گیسوؤں میں شانۂ ارماں نہ کیجئے
خون جگر سے دعوت مژگاں نہ کیجئے
مر جائیے نہ کیجئے ذکر بہشت و حور
اب خواب کو بھی خواب پریشاں نہ کیجئے
باقی ہو جو بھی حشر یہیں پر اٹھائیے
مرنے کے بعد زیست کا ساماں نہ کیجئے
دوزخ کو دیجیے نہ پراگندگی مری
شیرازۂ بہشت پریشاں نہ کیجئے
شاید یہی جہاں کسی مجنوں کا گھر بنے
ویرانہ بھی اگر ہے تو ویراں نہ کیجئے
کیا ناخدا بغیر کوئی ڈوبتا نہیں
مجھ کو مرے خدا سے پشیماں نہ کیجئے
ہے بت کدے میں بھی اسے ایمان کا خیال
کیوں اعتبار مرد مسلماں نہ کیجئے
ہم سے یہ بار لطف اٹھایا نہ جائے گا
احساں یہ کیجئے کہ یہ احساں نہ کیجئے
آئینہ دیکھیے مری صورت نہ دیکھیے
میں آئینہ نہیں مجھے حیراں نہ کیجئے
تو ہی عزیز خاطر احباب ہے حفیظؔ
کیا کیجئے اگر تجھے قرباں نہ کیجئے
اب تو کچھ اور بھی اندھیرا ہے
یہ مری رات کا سویرا ہے
رہزنوں سے تو بھاگ نکلا تھا
اب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے
آگے آگے چلو تبر والو
ابھی جنگل بہت گھنیرا ہے
قافلہ کس کی پیروی میں چلے
کون سب سے بڑا لٹیرا ہے
سر پہ راہی کے سربراہی نے
کیا صفائی کا ہاتھ پھیرا ہے
سرمہ آلود خشک آنسوؤں نے
نور جاں خاک پر بکھیرا ہے
راکھ راکھ استخواں سفید سفید
یہی منزل یہی بسیرا ہے
اے مری جان اپنے جی کے سوا
کون تیرا ہے کون میرا ہے
سو رہو اب حفیظؔ جی تم بھی
یہ نئی زندگی کا ڈیرا ہے
عرض
ہنر بھی وجہ شکایات ہو گئی
چھوٹا
سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی
دشنام
کا جواب نہ سوجھا بجز سلام
ظاہر
مرے کلام کی اوقات ہو گئی
دیکھا
جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے
ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
یا
ضربت خلیل سے بت خانہ چیخ اٹھا
یا
پتھروں کو معرفت ذات ہو گئی
یاران
بے بساط کہ ہر بازئ حیات
کھیلے
بغیر ہار گئے مات ہو گئی
بے
رزم دن گزار لیا رتجگا مناؤ
اے
اہل بزم جاگ اٹھو رات ہو گئی
نکلے
جو میکدے سے تو مسجد تھا ہر مقام
ہر
گام پر تلافئ مافات ہو گئی
حد
عمل میں تھی تو عمل تھی یہی شراب
رد
عمل بنی تو مکافات ہو گئی
اب
شکر ناقبول ہے شکوہ فضول ہے
جیسے
بھی ہو گئی بسر اوقات ہو گئی
وہ
خوش نصیب تم سے ملاقات کیوں کرے
دربان
ہی سے جس کی مدارات ہو گئی
ہر
ایک رہنما سے بچھڑنا پڑا مجھے
ہر
موڑ پر کوئی نہ کوئی گھات ہو گئی
یاروں
کی برہمی پہ ہنسی آ گئی حفیظؔ
یہ
مجھ سے ایک اور بری بات ہو گئی
دیکھو یہ دل لگی کہ سر رہ گزار حسن
اک اک سے پوچھتا ہوں مرا دل کدھر گیا
اے چارہ گر سنا مرے تیغ آزاما کی خبر
اب درد سر کی فکر نہ کر درد سر گیا
اے میرے رونے والو خدارا جواب دو
وہ بار بار پوچھتے ہیں کون مر گیا
شاید سمجھ گیا مرے طول مرض کا راز
اب چارہ گر نہ آئے گا اب چارہ گر گیا
[حفیظ جالندھری]
اب وہ سکون یاس نہ وہ اضطراب شوق
سینے میں دل ہے یا کوئی لاشہ مزار میں
اب خاک اڑائیے نہ ہمارے مزار کی
اب خاک بھی نہیں ہے ہمارے مزار میں
[حفیظ جالندھری]
حضرت اسمٰعیل کی قربانی
بشارت خواب میں پائی کہ اٹھ ہمت کا
ساماں کر
پئے خوشنودی مولیٰ اسی بیٹے کو قرباں
کر
خلیل اللہ اٹھے خواب سے دل کو یقیں
آیا
کہ آخر امتحاں بندے کا مالک نے ہے
فرمایا
اٹھا مرسل اسی عالم میں رسی اور تبر
لے کر
پئے تعمیل چل نکلا خدا کا پاک پیغمبر
پہاڑی پر سے دی آواز اسمٰعیل ادھر آؤ
ادھر آؤ خدائے پاک کا ارشاد سن جاؤ
پدر کی یہ صدا سن کر پسر دوڑا ہوا آیا
رکا ہرگز نا اسمٰعیل گو شیطاں نے
بہکایا
پدر بولا کہ بیٹا آج میں نے خواب
دیکھا ہے
کتاب زندگی کا اک نرالا باب دیکھا ہے
یہ دیکھا ہے کہ میں خود آپ تجھ کو
ذبح کرتا ہوں
خدا کے نام سے تیرے لہو میں ہاتھ
بھرتا ہوں
سعادتمند بیٹا جھک گیا فرمانِ باری پر
زمین و آسماں حیراں تھے اس طاعت گزاری
پر
رضا جوئی کی یہ صورت نظر آئی نہ تھی
اب تک
یہ جرات پیشتر انساں نے دکھلائی نا
تھی اب تک
عجب بشاش تھے دونوں رضائے رب عزت پر
تامل یا تذبذب کچھ نا تھا دونوں کی
صورت پر
کہا فرزند نے اے باْپ اسمٰعیل صابر ہے
خدا کے حکم پر بندہ پئے تعمیل حاضر ہے
مگر آنکھوں پر اپنی آپ پٹی باندھ لیجے
گا
مرے ہاتھوں میں اور پیروں میں رسی
باندھ دیجے گا
مبادا آپ کو صورت پہ میری رحم آ جائے
مبادا میں تڑپ کر چھوٹ جاؤں ہاتھ
تھرائے
پسر کی بات سن کر باپ نے تعریف فر
مائی
یہ رسی اور پٹی باندھنی ان کو پسند
آئی
ہوئے اب ہر طرح تیار دونوں باپ اور
بیٹا
چھری تھامی پدر نے اور پسر قدموں میں
آ لیٹا
پچھاڑا اور گھٹنا سینہ معصوم پر رکھا
چھری پتھر پہ رگڑی ہاتھ کو حلقوم پر
رکھا
زمیں سہمی پڑی تھی ، آسماں ساکن تھا
بیچارہ
نہ اس سے پیشتر دیکھا تھا یہ حیرت کا
نظارہ
پدر تھا مطمئن بیٹے کے چہرے پر بحالی
تھی
چھری حلقوم اسمٰعیل پر چلنے ہی والی
تھی
مشیت کا مگر دریائے رحمت جوش میں آیا
کہ اسمٰعیل کا اک رونگٹا کٹنے نہیں
پایا
ہوئے جبریل نازل اور تھاما ہاتھ حضرت
کا
کہا بس ، امتحاں مقصود تھا ایثار و
جرات کا
اطاعت اور قربانی ہوئی منظورِ یزدانی
جزا یہ ہے کہ جنت سے یہ برا آگیا ہے
بہر قربانی
ہمیشہ کے لئے اس خوابِ صادق کا ثمر
لیجے
اسی برے کو بیٹے کے عوض قربان کر دیجے
مٹی قربانی انسان اسمٰعیل کے صدقے
حیات نو ملی ایمان کی تکمیل کے صدقے
خطاب اس دن سے اسمٰعیل نے پایا ذبیح
اللہ
خدا نے آپ ان کے حق میں فرمایا ،
ذبیح اللہ
[حفیظ جالندھری]
آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے
آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے
زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں
موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے
میری پیشانی پہ اک سجدہ تو ہے لکھا
ہوا
یہ نہیں معلوم ہے کس آستانے کے لیے
ان کا وعدہ اور مجھے اس پر یقیں اے ہم
نشیں
اک بہانہ ہے تڑپنے تلملانے کے لیے
جب سے پہرہ ضبط کا ہے آنسوؤں کی فصل
پر
ہو گئیں محتاج آنکھیں دانے دانے کے
لیے
آخری امید وقت نزع ان کی دید تھی
موت کو بھی مل گیا فقرہ نہ آنے کے لیے
اللہ اللہ دوست کو میری تباہی پر یہ
ناز
سوئے دشمن دیکھتا ہے داد پانے کے لیے
نعمت غم میرا حصہ مجھ کو دے دے اے خدا
جمع رکھ میری خوشی سارے زمانے کے لیے
نسخۂ ہستی میں عبرت کے سوا کیا تھا
حفیظؔ
سرخیاں کچھ مل گئیں اپنے فسانے کے لیے
مری شاعری ہے نظاروں کی دنیا
یہ نغمہ سرا جوئباروں کی دنیا
یہ ہنگامہ زار آبشاروں کی دنیا
فلک آشنا کوہساروں کی دنیا
یہ پھولوں کی بستی بہاروں کی دنیا
یہی ہے مرے شاہ کاروں کی دنیا
مری شاعری ہے نظاروں کی دنیا
مری شاعری چاند تاروں کی دنیا
یہ رنگیں گھروندا طلسم زمانہ
کھلونوں کا ہے اک بڑا کارخانہ
ہوا باندھنا اور غبارے بنانا
غبارے بنا کر فضا میں اڑانا
مرے شعر کا شعبدہ ہے پرانا
مری شاعری چاند تاروں کی دنیا
مری شاعری بخت یاروں کی دنیا
فلک شامیانہ ہے پربت قناتیں
اسی اوٹ میں دیدہ و دل کی گھاتیں
ہجوم تمنا خوشی کی براتیں
جوانی کے دن کامرانی کی راتیں
مرے شعر کی یہ بھی ہیں وارداتیں
مری شاعری بخت یاروں کی دنیا
مری شاعری خار زاروں کی دنیا
تہی دستی و پستی و خستہ حالی
بگولوں سے معمور پھولوں سے خالی
وہ بیشہ کہ ہے مزرع خشک سالی
جہاں ابر بھولا ہے دریا نوالی
نہ بھولی اسے بھی مری فکر عالی
مری شاعری خارزاروں کی دنیا
مری شاعری شہسواروں کی دنیا
بہادر جری سورما اور جیالے
قضا جن کی ڈھالیں قدر جن کے بھالے
تہور کے گھوڑوں کی باگیں سنبھالے
چلے ہیں سوئے رزم گہہ عزم والے
مرے شعر ہیں غازیوں کے رسالے
مری شاعری شہسواروں کی دنیا
مری شاعری دل فگاروں کی دنیا
یہ فریاد خاموش نیچی نگاہیں
یہ ارماں کہ مسدود ہیں جن کی راہیں
فریب وفا سے کہاں تک نباہیں
مرے دیدہ و دل ہیں ان کی پناہیں
مرے شعر آنسو مرے شعر آہیں
مری شاعری دل فگاروں کی دنیا
مری شاعری بے قراروں کی دنیا
وہ ذرہ کہ راہ سکوں میں مخل ہے
وہ قطرہ کہ صد آتش مشتعل ہے
وہ دیدہ کہ بیداریٔ مستقل ہے
وہ دل جس سے دل گرمی آب و گل ہے
مرے شعر میں بھی وہی ایک دل ہے
مری شاعری بے قراروں کی دنیا
مری شاعری خاکساروں کی دنیا
بسیرا خس و خار و خاشاک پر ہے
مگر ہاتھ ہر خوشۂ تاک پر ہے
اگرچہ سر بے خودی خاک پر ہے
دماغ خودی اوج افلاک پر ہے
مرے شعر کی آنکھ ادراک پر ہے
مری شاعری خاکساروں کی دنیا
مری شاعری بادہ خواروں کی دنیا
چلے جام جم بھی جمے بزم مے بھی
مگر ساقیا دیکھ اک اور شے بھی
یہ فریاد میری کہ ہے جس میں لے بھی
یہ نالہ مرا جو ہے پابند نے بھی
مرا شعر شیشہ بھی نشہ بھی مے بھی
مری شاعری بادہ خواروں کی دنیا
مری شاعری دوست داروں کی دنیا
یہ دنیا جہاں سے الگ اک جہاں ہے
یہ دل نوازی کا سکہ رواں ہے
یہاں آسماں ہے مگر مہرباں ہے
نہ جانے عداوت کی دنیا کہاں ہے
مرا شعر اخلاص کا ترجماں ہے
مری شاعری دوست داروں کی دنیا
مری شاعری غمگساروں کی دنیا
فلک مہر پرور زمیں مہ جبیں ہے
نہ وہ سرد مہر اور نہ یہ گرم کیں ہے
فلک بھی حسیں ہے زمیں بھی حسیں ہے
وہ نور آفریں یہ ظہور آفریں ہے
مرے آئنے میں کدورت نہیں ہے
مری شاعری غمگساروں کی دنیا
مری شاعری میرے پیاروں کی دنیا
وہ پیارے کہ سوئے عدم جا چکے ہیں
وہ کلیاں وہ غنچے جو مرجھا چکے ہیں
ترانے جو آرام فرما چکے ہیں
خزانے جنہیں لوگ دفنا چکے ہیں
مرے شعر میں زندگی پا چکے ہیں
مری شاعری میرے پیاروں کی دنیا
مری شاعری انتظاروں کی دنیا
کبھی میں بھی ہو جاؤں آزاد شاید
اسیری کی گھٹ جائے میعاد شاید
سنی جائے اک روز فریاد شاید
وہ بھولے سے کر لے مجھے یاد شاید
وہاں کام آئے یہ روداد شاید
مری شاعری انتظاروں کی دنیا
مری شاعری ہے اشاروں کی دنیا
فلک پر ہیں گردش میں چاند اور تارے
زمیں پر بہار و خزاں کے نظارے
برابر چلے جا رہے ہیں بچارے
کہ ذوق نظر دے رہا ہے سہارے
مگر کون سمجھے یہ نازک اشارے
مری شاعری ہے اشاروں کی دنیا
[حفیظ جالندھری]
زاہد سے نہیں، حُسن کی سرکار سے
پُوچھو
ہم بندۂ تسلیم و رضا ہیں، کہ نہیں ہیں
ہاں میں تو لِئے پھرتا ہوں اِک سجدۂ
بیتاب
اُن سے بھی تو پوچھو، وہ خدا ہیں کہ
نہیں ہیں
[حفیظ جالندھری]
جھگڑا دانے پانی کا ہے، دام و قفس کی
بات نہیں
اپنے بس کی بات نہیں، صیّاد کے بس کی
بات نہیں
جان سے پیارے یار ہمارے قیدِ وفا سے
چھوٹ گئے
سارے رشتے ٹوٹ گئے، اک تارِ نفس کی
بات نہیں
تیرا پھولوں کا بستر بھی راہ گزارِ
سیل میں ہے
آقا، اب یہ بندے ہی کے خار و خس کی
بات نہیں
دونوں ہجر میں رو دیتے ہیں، دونوں وصل
کے طالب ہیں
حسن بھلا کیسے پہچانے، عشق ہوس کی بات
نہیں
نوش ہے عنواں، نیش نتیجہ، ان شیریں
افسانوں کا
تذکرہ ہے انسانوں کا یہ مور و مگس کی
بات نہیں
کارِ مغاں، یہ قند کا شربت بیچنے والے
کیا جانیں
تلخی و مستی بھی ہے غزل میں، خالی رس
کی بات نہیں
تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظ کا
حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات
نہیں
آسماں بیداد ہی کرتا رہا
آدمی فریاد ہی کرتا رہا
عشق کی صورت نہ دیکھیں گے کبھی
حسن مجھ کو یاد ہی کرتا رہا
آج تک ہوں تیرے وعدے کا اسیر
تو مجھے آزاد ہی کرتا رہا
دل کی بستی اپنے ہاتھوں سے حفیظ
ہر کوئی برباد ہی کرتا رہا
[حفیظ جالندھری]
چاند اور ستاروں کا یہ سماں کیا دلکش
اور سہانا ہے
افسوس مجھے نیند آئی ہے ، افسوس مجھے
سو جانا ہے
معصوم اُمنگیں جھول رہی ہیں دلداری کے
جھولوں میں
یہ کچّی کلیاں کیا جانیں کب کِھلنا کب
مرجھانا ہے
دل شیشہ بنے پیمانہ بنے ہم دل کی
حقیقت جانتے ہیں
بے رنگ سا اک قطرہ ہے جسے آنسو بن کر
بہ جانا ہے
[حفیظ جالندھری]
مجھے تو اس خبر نے کھو دیا ہے
سنا ہے میں کہیں پایا گیا ہوں
[حفیظ جالندھری]
زاہد سے نہیں، حُسن کی سرکار سے
پُوچھو
ہم بندۂ تسلیم و رضا ہیں، کہ نہیں ہیں
ہاں میں تو لِئے پھرتا ہوں اِک سجدۂ
بیتاب
اُن سے بھی تو پوچھو، وہ خدا ہیں کہ
نہیں ہیں
[حفیظ جالندھری]
جھگڑا دانے پانی کا ہے، دام و قفس کی
بات نہیں
اپنے بس کی بات نہیں، صیّاد کے بس کی
بات نہیں
جان سے پیارے یار ہمارے قیدِ وفا سے
چھوٹ گئے
سارے رشتے ٹوٹ گئے، اک تارِ نفس کی
بات نہیں
تیرا پھولوں کا بستر بھی راہ گزارِ
سیل میں ہے
آقا، اب یہ بندے ہی کے خار و خس کی
بات نہیں
دونوں ہجر میں رو دیتے ہیں، دونوں وصل
کے طالب ہیں
حسن بھلا کیسے پہچانے، عشق ہوس کی بات
نہیں
نوش ہے عنواں، نیش نتیجہ، ان شیریں
افسانوں کا
تذکرہ ہے انسانوں کا یہ مور و مگس کی
بات نہیں
کارِ مغاں، یہ قند کا شربت بیچنے والے
کیا جانیں
تلخی و مستی بھی ہے غزل میں، خالی رس
کی بات نہیں
تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظ کا
حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات
نہیں
[حفیظ جالندھری]
زندگی کا لطف بھی آ جائے گا
زندگانی ہے تو دیکھا جائے گا
جس طرح لکڑی کو کھا جاتا ہے گھن
رفتہ رفتہ غم مجھے کھا جائے گا
حشر کے دن میری چپ کا ماجرا
کچھ نہ کچھ تم سے بھی پوچھاجائے گا
مسکرا کر ، منہ چڑ١ ، گھور کر
جا رہے ہو خیر دیکھا جائے گا
کر دیا ہے تم نے دل کو مطمئن
دیکھ لینا سخت گھبرا جائے گا
حضرتِ دل کام سے جاؤںگا میں
دل لگی میں آپ کا کیا جائے گا
دوستوں کی بیوفائی پر حفیظ
صبر کرنا بھی مجھے آ جائے گا
[حفیظ جالندھری]
ابھی تو میں جوان ہوں
ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبُو، سبُو اٹھا
سبُو اٹھا، پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں
خیالِ زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں
عبادتوں کا ذکر ہے
نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا
خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں
ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر
کوئی اِدھر کوئی اُدھر
ابھارتے ہوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصّہ مختصر
تمھارا نقطۂ نظر
درست ہے تو ہو مگر
ابھی تو میں جوان ہوں
نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا
نہ وعدۂ الست کا
امید اور یاس گم
حواس گم، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم
ہمہ بجز گلاس گم
نہ مے میں کچھ کمی رہے
قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے
یہی ہما ہمی رہے
وہ راگ چھیڑ مطربا
طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا
نہ ہاتھ روک ساقیا
پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں
یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا
یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں
اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں
نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں
[حفیظ جالندھری]
رنگ بدلا یار کا، وہ پیار کی باتیں گئیں
وہ ملاقاتیں گئیں، وہ چاندنی راتیں گئیں
پی تو لیتا ہوں مگر پینے کی وہ باتیں گئیں
وہ جوانی، وہ سیہ مستی، وہ برساتیں گئیں
اللہ اللہ کہہ کے بس اک آہ کرنا رہ گیا
وہ نمازیں، وہ دعائیں، وہ مناجاتیں گئیں
حضرتِ دل ہر نئی اُلفت سمجھ کر سوچ کر
اگلی باتوں پر نہ بھُولیں آپ وہ باتیں گئیں
راہ و رسمِ دوستی قائم تو ہے، لیکن حفیظ
ابتدائے شوق کی لمبی ملاقاتیں گئیں
[حفیظ جالندھری]
آنے لگا ہے اپنی حقیقت سے ڈر مجھے
کیوں دیکھتے ہیں غور سے اہلِ نظر مجھے
ہے خوابِ مرگ زندگیِ تازہ کی دلیل
یہ شام دے رہی ہے نویدِ سحر مجھے
بدلی ہوئی نگاہ کو پہچانتا ہوں میں
دینے لگے پھر آپ فریبِ نظر مجھے
لے جاؤ ساتھ ہوش کو، اے اہلِ ہوش جاؤ
ہے خوب اپنی بےخبری کی خبر مجھے
لو وہ تو آکے بیٹھ گئے میرے سامنے
اُٹھنا پڑے نہ بزم سے دل تھام کر مجھے
کھویا گیا ہوں بےخودیءِ ذوقِ عشق میں
اے عقل جاکے لا تو ذرا ڈھونڈھ کر مجھے
ہوتا ہے کون موت پہ عاشق مرے سوا؟
سوجھا نہ یہ فریب کسی کو، مگر مجھے
"اے روشنیِ طبع تو برمن بلاشدی"
پھر یہ نہیں تو کھاگئی کس کی نظر مجھے
[حفیظ جالندھری]
مِرے مذاقِ سُخن کو سُخن کی تاب نہیں
سُخن ہے نالۂ دل ، نالۂ رباب نہیں
اگر وہ فتنہ ، کوئی فتنۂ شباب نہیں
تو حشر میرے لئے وجہِ اضطراب نہیں
نہیں ثواب کی پابند بندگی میری
یہ اِک نشہ ہے جو آلودۂ شراب نہیں
مجھے ذلیل نہ کر عُذرِ لن ترانی سے
یہ اہلِ ذوق کی توہین ہے، جواب نہیں
جو کامیابِ محبّت ہے ، سامنے آئے
میں کامیاب نہیں، ہاں میں کامیاب نہیں
اُسی کی شرم ہے میری نِگاہ کا پردہ
وہ بے حِجاب سہی ، میں تو بے حِجاب
نہیں
سُنا ہے میں نے بھی ذکرِ بہشت و حُور
و قصُور
خُدا کا شُکر ہے نیّت مِری خراب نہیں
سُخنورانِ وطن سب ہیں اہلِ فضل و کمال
تو کیوں کہوں ، کہ میں ذرّہ ہُوں
آفتاب نہیں
بیانِ درد کو ، دل چاہیے جنابِ حفیظ
فقط ، زبان یہاں ، قابلِ خِطاب نہیں
[حفیظ جالندھری]
میں کیا ہوں اس خیال سے لگتا ہے ڈر مجھے
کیوں دیکھتے ہیں غور سے اہلِ نظر مجھے
لے جاو ساتھ ہوش کو اے اہلِ ہوش جاو
ہے خوب اپنی بے خبری کی خبر مجھے
بدلی ہوئی نگاہ کو پہچانتا ہوں میں
دینے لگے پھر آپ فریبِ نظر مجھے
گم ہو گیا ہوں بے خودئ زوقِ عشق میں
اے عقل جا کے لا تو ذرا ڈھونڈ کر مجھے
میں اپنی زندگی کو بُرا کیوں کہوں حفیظ
رہنا ہے اس کے ساتھ میاں عُمر بھر مجھے
[حفیظ جالندھری]
آرزوئے وصلِ جاناں میں سحر ہونے لگی
زندگی مانندِ شمعِ مُختصر ہونے لگی
رازِ الفت کھُل نہ جائے، بات رہ جائے
مِری
بزمِ جاناں میں الہٰی چشم تر ہونے لگی
اب شکیبِ دل کہاں، حسرت ہی حسرت رہ
گئی
زندگی اِک خواب کی صُورت بسر ہونے لگی
یہ طِلِسمِ حُسن ہے، یا کہ مآلِ عشق
ہے
اپنی ناکامی ہی اپنی راہ بر ہونے لگی
سُن رہا ہوں آرہے ہیں وہ سرِ بالین آج
میری آہِ نارسا بھی، با اثرہونے لگی
اُن سے وابستہ اُمیدیں جو بھی تھیں،
وہ مِٹ گئیں
اب طبیعت، آپ اپنی چارہ گر ہونے لگی
وہ تبسّم تھا، کہ برقِ حُسن کا اعجاز
تھا
کائناتِ جان و دل زیر و زبر ہونے لگی
دل کی دھڑکن بڑھ گئی آنکھوں میں آنسو
آ گئے
غالباً میری طرف اُن کی نظر ہونے گی
جب چلا مُشتاق اپنا کارواں سُوئے عدم
یاس ہم آغوش ہو کر ہم سفر ہونے لگی
[حفیظ جالندھری]
غم موجود ہے آنسو بھی ہیں، کھا تو رہا ہوں پی تو رہا ہوں
جینا اور کسے کہتے ہیں، اچھا خاصا جی تو رہا ہوں
یارو میں نے اپنا سینہ اپنے ہاتھوں چاک کیا ہے
سچ کہتے ہو لیکن دیکھو! اپنے ہاتھوں سی تو رہا ہوں
خون جگر آنکھوں سے نہ ٹپکا، منہ سے شعلہ بن کر لپکا
شعبدہ گر ہوں مجھ پر ہنسیے، میں بھی ہنستا ہی تو رہا ہوں
سیم و زر سے برتر و بالا، شاید کوئی شے پا جاؤ
راکھ ذرا میری بھی کریدو، کیمیا گر میں بھی تو رہا ہوں
ہاں میں حفیظؔ ہوں تیرا بندہ، بت خانے کے اندر اب تک
میری نیت پوچھتا کیا ہے، تیری مشیت تھی تو رہا ہوں
[حفیظ جالندھری]
0 Comments
Dear Visitors please don't send bad comment and don't share spam links.thank you for your support.