Azra Parveen

 Azra Parveen Poetry, Ghazals in Urdu

Azra Parveen
Azra Parveen



Zamin ke aur taqazey,Falak kuch aur kahay

Qalam bhi chup hai ke ab Mor ley kahani

Azra Parveen



زمیں کے اور تقاضے فلک کچھ اور کہے

قلم بھی چپ ہے کہ اب موڑ لے کہانی کیا

عذرا  پروین


❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤


Us ne mery nam sooraj chand taray likh dia

Mera dil matti pe rakh apnay lab rota raha

Azra Parveen


اس نے میرے نام سورج چاند تارے لکھ دیا

میرا دل مٹی پہ رکھ اپنے لب روتا رہا

عذرا  پروین 


❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤


Simmat gai to shabnam phool sitara thi

Biphar ke meri lehar lehar angara thi

Azra Parveen


سمٹ گئی تو شبنم پھول ستارہ تھی

بپھر کے میری لہر لہر انگارہ تھی

عذرا  پروین


❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

Rang apnay jo thay bhar bhi kahan paye kabhi hum

Hum ne to sada Radd e amal main hi basar ki

Azra Parveen


رنگ اپنے جو تھے بھر بھی کہاں پائے کبھی ہم

ہم نے تو سدا رد عمل میں ہی بسر کی

عذرا  پروین


❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤


Chaar simtey Aiena si har taraf

Tum ko kho deney ka manzar aur main

Azra Parveen


چار سمتیں آئینہ سی ہر طرف

تم کو کھو دینے کا منظر اور میں

عذرا  پروین

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

اب آنکھ بھی مشاق ہوئی زیر و زبر کی


اب آنکھ بھی مشاق ہوئی زیر و زبر کی

خواہش تو تری گھاٹ کی رہ پائی نہ گھر کی

رنگ اپنے جو تھے بھر بھی کہاں پائے کبھی ہم

ہم نے تو سدا رد عمل میں ہی بسر کی

جب صرف ترے گل میں مرا حصہ نظر ہے

پھر سوچ ہے کیا درد یہ تاخیر نظر کی

یہ کوفے کی گلیاں ہیں کہ یہ میری رگیں بھی

ہر سمت سے چبھتی ہے انی مجھ کو شمر کی

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

اب اپنی چیخ بھی کیا اپنی بے زبانی کیا


اب اپنی چیخ بھی کیا اپنی بے زبانی کیا

محض اسیروں کی محصور زندگانی کیا

رتیں جو تو نے اتاری ہیں خوب ہوں گی مگر

ببول سیج پہ سجتی ہے گل فشانی کیا

ہے جسم ایک تضادات کے کئی خانے

کرے گا پر انہیں اک رنگ آسمانی کیا

ہزار کروٹیں جھنکار ہی سناتی ہیں

یوں جھٹپٹانے سے زنجیر ہوگی پانی کیا

زمیں کے اور تقاضے فلک کچھ اور کہے

قلم بھی چپ ہے کہ اب موڑ لے کہانی کیا

انا تو قید کی تشہیر سے گریزاں تھی

پکار اٹھی مگر میری بے زبانی کیا

میں خشک نخل سی جنگل طویل تیز ہوا

بکھیر دے گی مجھے بھی یہ بے مکانی کیا

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤ 

 

بہر چراغ خود کو جلانے والی میں

بہر چراغ خود کو جلانے والی میں

دھوئیں میں اپنے کرب چھپانے والی میں

ہریالی درکار اڑانیں بھی پیاری

کدھر چلی میں کدھر تھی جانے والی میں

دھنک رتوں کے جال بچھانے والا تو

الجھ کے اپنا آپ گنوانے والی میں

میری چپ کا جشن منانے والا تو

تلواروں سے کاٹ چرانے والی میں

پونجی سن کر سمٹ نہ پانے والا تو

سکہ سکہ تجھے چرانے والی میں

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

بے خدا ہونے کے ڈر میں بے سبب روتا رہا

بے خدا ہونے کے ڈر میں بے سبب روتا رہا

دل کے چوتھے آسماں پر کون شب روتا رہا

کیا عجب آواز تھی سوتے شکاری جاگ اٹھے

پر وہ اک گھائل پرندہ جاں بہ لب روتا رہا

جاتے جاتے پھر دسمبر نے کہا کچھ مانگ لے

خالی آنکھوں سے مگر دل بے طلب روتا رہا

میں نے پھر اپریل کے ہاتھوں سے دل کو چھو لیا

اور دل سایوں سے لپٹا ساری شب روتا رہا

اس نے میرے نام سورج چاند تارے لکھ دیا

میرا دل مٹی پہ رکھ اپنے لب روتا رہا

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

 

سمٹ گئی تو شبنم پھول ستارہ تھی

سمٹ گئی تو شبنم پھول ستارہ تھی

بپھر کے میری لہر لہر انگارہ تھی

کل تری خواہش کب اتنی بنجاری تھی

تو سرتاپا آنکھ تھا میں نظارہ تھی

میں کہ جنوں کے پروں پہ اڑتی خوشبو تھی

رنگ رنگ کے آکار میں ڈھلتا پارہ تھی

میں دھرتی ہوں اسے یہی بس یاد رہا

بھول گیا میں اور بھی اک سیارہ تھی

تو ہی تو اذن تھا تو ہی انجام ہوا

ترا بچھڑنا اور میں پارہ پارہ تھی

 

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

آسماں ساحل سمندر اور میں

آسماں ساحل سمندر اور میں

کھلتا پھر یادوں کا دفتر اور میں

چار سمتیں آئینہ سی ہر طرف

تم کو کھو دینے کا منظر اور میں

میرا اجلا پن نئے انداز میں

تیری بخشش میلی چادر اور میں

ایک مورت میں تجربے نت نئے

کتنے بے کل میرا آزر اور میں

کھلتے ہیں اسرار عجب آلام میں

بند ہوتا وہ ہر اک در اور میں

رات اک تاریک پنجرا یاس کا

پھڑپھڑاتا ایک پیکر اور میں

 

 


Post a Comment

0 Comments