Qateel Shifai Poetry in Urdu

Qateel Shifai

بس اک بار تری لاش اس
پہ تڑپی تھی
پھر اس کے بعد زمیں کو
ملا نہ چین حسین
قتیل شفائی
آو کوئی تفریح کا سامان
کیا جائے
پھر سے کسی واعظ کو
پریشان کیا جائے
قتیل شفائی
یہ سوچ کر کہ نہ ہو تاک
میں خوشی کوئی
غموں کی اوٹ میں خود کو
چھُیا لیا میں نے
قتیل شفائی
دنیا میں قتیل اس سا
منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے
بغاوت نہیں کرتا
قتیل شفائی
معترف میں اپنی گُستاخی
کا ہوں، لیکن
حُسن والوں کو بھی
تھوڑی خوش بیانی دے
قتیل شفائی
میں ہوں دربارِ محمدﷺ
کا قصیدہ خواں قتیلؔ
اس لئے اپنے سُخن کو
معتبر کہتا ہوں میں
قتیلؔ شفائی
سُنتے ہیں قتیلؔ،پھر سے
موسیٰ
فرعون کے گھر میں پل
رہا ہے
قتیل شفائی
میں نے دیا الزام تو
چیخ اُٹھا شیطان
یار۔ یہ سارا کیا دھرا
آدم کا ہے
قتیل شفائی
اُٹھا تھا دُھواں بس
اِک مکاں سے
اب شہر کا شہر جل رہا
ہے
قتیلؔ شفائی
کاش ہم اس سے بچھڑے
ہوتے دکھ بھی ہوتا جسے قتیلؔ
ترکِ تعلق اس سے کیا ہے
جس سے تعلق تھا ہی نہیں
قتیل شفائی
پابندیِ افکار - قتیل
شفائی
پہلے تھے موضوعِ سُخن
مہکی شام، کھنکتے جام
رہ گئے باقی اب یارو
نزلہ، کھانسی اور زکام
Pabandi-e-Afkaar - Qateel Shifai
Pehlay Thay Mozou-e-Sukhan
Mehki Shaam, Khanaktay Jaam
Reh Gaye Baaqi Ab Yaaro
Nazla, Khaansi aur Zukaam
جو مکیں جس مکاں میں
بستا ہے
اس کی چھت سے لہو برستا
ہے
اب یہ عالم ہے اپنے
شہروں کا
لوگ روتے ہیں ظلم ہنستا
ہے
کوئی رہبر نہیں بتاتا
ہمیں
کس طرف دوستی کا رستہ
ہے
بولتا ہے جو امن کے حق
میں
ظلم آوازیں اس پہ کستا
ہے
ایک اک چیز ہوگئی مہنگی
صرف انسانوں کا خون
سستا ہے
سانپ ڈستے نہیں ہیں
سانپوں کو
آدمی آدمی کو ڈستا ہے
ہر شریف آدمی قتیلؔ
یہاں
آبرو کے لیے ترستا ہے
قتیل شفائی
جذبات کی راہوں پہ رواں
کر دیا مجھ کو
اک شخص کی باتوں نے
جواں کر دیا مجھ کو
میں نے تو بہت خود کو
چھپایا پسِ گفتار
اس نے مرے چہرےسے عیاں
کر دیا مجھ کو
کیا اشک بہائے مری
روداد پہ اُس نے
میں آگ کا شعلہ تھا
دھواں کر دیا مجھ کو
دی اپنے مراسم کی کچھ
ایسی مجھے پہچان
اُس شخص نے بے نام و
نشاں کردیا مجھ کو
میں بولنا چاہوں بھی تو
بنتے نہیں الفاظ
تقدیر نے گونگے کی زباں
کر دیا مجھ کو
لرزاں تھی یہ دھرتی مرے
قدموں کی دھمک سے
حالات نے بے تاب و تواں
کر دیا مجھ کو
میں اپنی وفا میں ہوں
قتیلؔ آج بھی قیدی
اُس زلف نے آزاد کہاں
کردیا مجھ کو
قتیل شفائی
شبنم نہیں کہتا اُسے
شعلہ نہیں کہتا
وہ کوئی بھی ہو میں
اُسے تجھ سا نہیں کہتا
اس ڈر سے کہ تومجھ کو
شفایاب نہ کردے
قاتل تجھے کہتا ہوں
مسیحا نہیں کہتا
دریا تو ہے وہ جس سے
کنارے چھلک اٹھیں
بہتے ہوئے پانی کو میں
دریا نہیں کہتا
سجتی ہے خیالوں میں سدا
کوئی رفاقت
تنہا ہوں مگر خود کو
میں تنہا نہیں کہتا
گہرائی جو دی تو نے مرے
زخمِ جگر میں
میں اُتنا سمندر کو بھی
گہرا نہیں کہتا
کس کس کی تمنا میں کروں
پیار کو تقسیم
ہر شخص کو میں جانِ
تمنا نہیں کہتا
کرتا ہوں قتیل ؔاپنے
گناہوں پہ بہت ناز
انسان ہوں میں خود کو
فرشتہ نہیں کہتا
قتیل شفائی
تو جھینپ کے گلشن میں اگر
پاؤں دھرے گا
کانٹے تو بڑی چیز ہیں
پھولوں سے ڈرے گا
بندیا تو مصور نے بنا
دی مرے خوں سے
تصویر میں وہ کون سا
رنگ اور بھرے گا
موسم کا جسے ٹھیک سے
اندازہ نہیں ہے
تپتے ہوئے صحرا میں بھی
سردی سے ٹھرے گا
واعظ نے عطا کی جسے
نفرت کی کمائی
اک روز محبت کے جوئے
میں وہ ہرے گا
ہم پی گئے جو پیاس تھی
مخلوقِ خدا کی
اب بعد ہمارے کوئی
پیاسا نہ مرے گا
دنیا میں قتیلؔ آپ
حسینوں سے نمٹ لے گا
اللہ تو محشر میں ہی
انصاف کرے گا
قتیل شفائی
اے خدا اب تو اُسے
جھومتا بادل کردے
یوں وہ برسے کہ مرے
پیار کو جل تھل کر دے
مرے محبوب کے پیروں کو
جو چھینٹا چومے
ایسے چھینٹے کو چھنکتی
ہوئی پائل کردے
کیسے ممکن ہے کہ میں
حشر کے سورج سے ڈروں
مجھ پہ سایا جو مرے یار
کا آنچل کردے
اے مرے حسن ِخیال اس کو
سجانے کیلئے
صبح کو غازہ بنا،رات کو
کاجل کر دے
آج پھر جھیل کنارے مجھے
تڑپاتا ہے
کاش اس چاند کو پانی
میں کوئی حل کردے
اے مقدر مجھے ترسائے گا
آخر کب تک؟
یا مری بات سمجھ،یا
مجھے پاگل کر دے
وہ مجھے کر تو رہاہے
نظر انداز، قتیلؔ
اُس کو بھی وقت زمانے
سے نہ اوجھل کردے
قتیل شفائی
کب مرے یارب، بہ عنوان
ہنر کہتا ہوں میں
نعت جب کہتا ہوں تیرے
حکم پر کہتا ہوں میں
حکم تیرا ہے کروں مدحِ
نبیؐ میں تیرے بعد
تو ہے سب کچھ، اور
انہیں خیر البشر کہتا ہوں میں
اُنؐ کے ذکرِ خیر پر
لازم ہے آنکھوں کا وضو
جو کہوں اُن کے لئے با
چشمِ تر کہتا ہوں میں
رفتہ رفتہ کس طرح پہنچا
میں اُنؐ کے پاؤں تک
سجدہ سجدہ اپنی رودادِ
سفر کہتا ہوں میں
مانتا ہے کرکے بند
آنکھیں جو احکامِ رسولؐ
صرف ایسے شخص کو اہلِ
نظر کہتا ہوں میں
اے خدا یہ بھی مجھے
تیرے نبیؐ کی دین ہے
بات جو کہتا ہوں بے خوف
و خطر کہتا ہوں میں
میں ہوں دربارِ محمدﷺ
کا قصیدہ خواں قتیلؔ
اس لئے اپنے سخن کو
معتبر کہتا ہوں میں
قتیل شفائی
نہ کوئی خواب ہمارے ہیں
نہ تعبیریں ہیں
ہم تو پانی پہ بنائی
ہوئی تصویریں ہیں
کیا خبر کب کسی انسان
پہ چھت آن گرے
قریۂ سنگ ہے اور کانچ
کی تعمیریں ہیں
لُٹ گئے مفت میں دونوں،
تری دولت مرا دل
اے سخی! تیری مری ایک
سی تقدیریں ہیں
کوئی افواہ گلا کاٹ نہ
ڈالے اپنا
یہ زبانیں ہیں کہ چلتی
ہوئی شمشیریں ہیں
اب کے عشاق کی یہ زندہ
دلی بھی دیکھو
ہجر کے دن ہیں مگر وصل
کی تدبیریں ہیں
ہم جو ناخواندہ نہیں
ہیں تو چلو آؤ پڑھیں
وہ جو دیوار پہ لکھی
ہوئی تحریریں ہیں
ہو نہ ہو یہ کوئی سچ
بولنے والا ہے قتیلؔ
جس کے ہاتھوں میں قلم
پاؤں میں زنجیریں ہیں
قتیل شفائی
لَب سِل گئے قتیلؔ بس
اِک التجا کے بعد
میں چاہتا ہوں کس کو
شہہِ انبیاء کے بعد
لایا ہوں اُن کے در سے
میں بھر بھر کے جھولیاں
آسؤدہ نظر ہوں میں اُن
کی عطا کے بعد
قلب و نظر مرا دین تھے
صحت ملی مجھے
اُس شہرِ بے مثال کی آب
و ہوا کے بعد
کل کائنات کے لئے جب وہ
ہوئے طلوع
سب چاند ماند پڑ گئے
اُن کی ضیاء کے بعد
باقی تھا مرحلہ ابھی
تکمیل دین کا
آئے حضور اس لئے سب
انبیاء کے بعد
دل تو کچھ اور کہتا ہے
لیکن میں کیا کروں
سجدا روا نہیں ہے کسی
کو خدا کے بعد
دنیا میں احترام کے
قابل ہیں کتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں
مگر مصطفےٰ کے بعد
Lab Sil Gaye Qateel Bas Ek ilteja K Baad
Main Chahta Houn Kis Ko Shah-e-Ambia K Baad
Laaya Houn Un K Dar Say Main Bhar Bhar K Jholian
Asooda-e-Nazar Houn Main Unki Ataa K Baad
Qalb-o-Nazar Mera Deen Thay Sehat Mili Mujhay
Us Shehr-e-Bay Misaal Ki Aab-o-Hawa K Baad
Kull Kainaat K Liye Jab Woh Huay Taloo
Sab Chaand Maand Par Gaye Unki Zia K Baad
Baaqi Tha Marhala Abhi Takmeel-e-Deen ka
Aaye Huzoor (SAW) is Liye Sab Ambia K Baad
Dil Tou Kuch Aur Kehta Hay lakin Main Kaya Karoun
Sajda Rawa Nahein Hay Kisi Ko Khuda K Baad
Dunya Main Ahtraam K Qaabil Hain Jitnay Log
Main Sab Ko Manta Houn Magar Mustafa K Baad
Qateel Shifai
صاف جب اُس نے کہہ دیا
مجھ سے نہیں ہے پیار اُسے
جانے پھر آج بھی ہے
کیوں، میرا ہی انتظار اُسے
روٹھ کے چل دیا کبھی،
چھم سے کبھی وہ آگیا
کس نے وصال و ہجر کا،
دے دیا اختیار اُسے
ہو نہ سکا مجھے کبھی،
حوصلہ بے وفائی کا
میری بجائے کوئی اور کر
گیا بے قرار اُسے
بھولے سے آگیا تھا وہ،
میرے محلے ایک دن
ایک رئیس شہر نے طعنے
دیے ہزار اُسے
بیت گئے کئی برس، بھید
یہ مجھ پہ اب کھُلا
ترکِ وفاکے بعد بھی،
میں نے کیا ہے پیار اُسے
اس کی رسیلی آنکھ تھی،
جام شراب کا بدل
برسوں اب اپنے شہر میں،
ڈھونڈیں گے بادہ خوار اُسے
اُس کے فراق میں قتیلؔ،
تیری تو جاں چلی گئی
تجھ سا ہی اب تو کوئی
اور چاہیے جاں نثار اُسے
قتیلؔ شفائی
جب بھی کوئی ادا تری بھا
گئی مجھے
اپنی تباہیوں پہ ہنسی
آگئی مجھے
Jab Bhi Koi Ada Teri Bhaa Gayi Mujhay
Apni Tabahiyoun Pah HAnsi Aa Gayi Mujhay
وہ آزار کہ جس کی مروت
کا زعم تھا
دل سے نکل کے اور بھی
تڑپا گئی مجھے
Woh Aazaar Kah Jiski Murawwat Ka Zow'am Tha
Dil Say Nikal K Aur Bhi Tarpa gayi Mujhay
ممکن ہے اس سے موت بھی
گوش آشنا نہ ہو
جو بات بے رخی تری
سمجھا گئی مجھے
Mumkin Hay Is Say Moat Bhi Goash Aashnaa Nah Ho
Jo Baat Bay Rukhi Teri Samjha Gayi Mujhay
اپنی نظر بھی اب مجھے
پہچانتی نہیں
شاید تری نگاہِ کرم کھا
گئی مجھے
Apni Nazar Bhi Ab Mujhay Pehchanti Nahin
Shayad Teri Nigah-e-Karam Kha Gayi Mujhay
Qateel Shifai
آزاد غزل
میری دنیا میں کہیں بھی
چاندنی راتیں نہیں
اس لیے تم سے ملاقاتیں
نہیں
دیکھنا چاہو جو ساون کا
سماں تو دل میں آؤ
میری آنکھوں میں تو
برساتیں نہیں
جو اُٹھانے آئے بے بس
دلہنوں کی ڈولیاں
وہ تو یلغاریں ہیں
باراتیں نہیں
کہہ رہے ہیں آپ اپنے
اہلِ مجلس کو برا
میرِ مجلس یہ بھلی
باتیں نہیں
جن میں شامل ہو خوشامد،
جن کا مقصد ہو مفاد
وہ قصیدے ہیں مناجاتیں
نہیں
دل کی بے تابی نے بخشی
ہیں یہ سب رسوائیاں
یہ محبت کی تو سوغاتیں
نہیں
اے خدا میرے وطن کے
موسموں کو کیا ہوا
ابر ہیں موجود برساتیں
نہیں
ذات کے خانے میں بس
عاشق ہی لکھوانا قتیلؔ
اہلِ دل کی مختلف ذاتیں
نہیں
قتیل شفائی - برشگال
معاملہ ہمارے دل کا اُس
پہ اب عیاں ہوا
بہت دنوں کے بعد کوئی
ہم پہ مہرباں ہوا
جو بول اٹھی ہیں
دھڑکنیں تو کس کا یہ کمال ہے
ہمیں تو عرضِ شوق کا
بھی حوصلہ کہاں ہوا
کسی کے ہاتھ آ بھی جائے
تو نہیں ہے ڈر کوئی
وہ ان لکھا معاہدہ جو
اپنے درمیاں ہوا
دکھائی دے رہا تھا وہ
جو عام سااک آدمی
وہی ہمارے دل کی سلطنت
کا حکمراں ہوا
وہ اس کے ہونٹ جو مری
غزل سے ہمکلام ہیں
انہی کو دیکھ دیکھ کر
مرا ہنر جواں ہوا
وہ اس کا جسم، جل اٹھے
نگاہ جس کی آنچ سے
اُسی کے روبرو تو میرا
دل دُھواں دُھواں ہوا
جو کافر اُس کو دیکھ لے
تو وہ خدا کو مان لے
طلوع اس کے حسن سے وہ
صبح کا سماں ہوا
قتیلؔ اُس کی یہ ستائش
اور اتنی برمحل!
قصیدہ گوئی میں ترا قلم
تو اب رواں ہوا
قتیل شفائی
شہرِآشوب
رشتہِ دیوار و در، تیرا
بھی ہے، میرا بھی ہے
مت گرا اس کو یہ گھر
تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
تیرے میرے دم سے ہی
قائم ہیں اس کی رونقیں
میرے بھائی یہ نگر تیرا
بھی ہے، میرا بھی ہے
کیوں لڑیں آپس میں ہم
ایک ایک سنگِ میل پر
اس میں نقصانِ سفر تیرا
بھی ہے، میرا بھی ہے
شاخ شاخ اس کی ہمیشہ
بازوئے شفقت بنی
سایا سایا یہ شجر تیرا
بھی ہے، میرا بھی ہے
کھا گئی کل ناگہاں جن
کو فسادوں کی صلیب
اُن میں اِک نورِ نظر
تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
اپنی حالت پر نہیں تنہا
کوئی بھی سوگوار
دامنِ دل تر بہ تر تیرا
بھی ہے، میرا بھی ہے
کچھ تو ہم اپنے ضمیروں
سے بھی کر لیں مشورہ
گرچہ رہبر معتبر تیرا
بھی ہے، میرا بھی ہے
غم تو یہ ہے گر گئی
دستارِ عزت بھی قتیلؔ
ورنہ اِن کاندھوں پہ سر
تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
قتیل شفائی
ساتھ ہمارا - قتیل
شفائی
اگر جنموں کا رشتہ
واقعی سچ ہے تو اے جاناں
کسی اگلے جنم میں بھی
ملاقات آپ سے ہوگی
ملاقات اب کے بھی اپنی
ہوئی لیکن ادھوری سی
قریب آئے ہیں لیکن
درمیاں ہے ایک دوری سی
جنم ایک اور لیں گی آپ
یہ دوری مٹانے کو
پسند آیا نہ اپنا وہ
ملن بھی گر زمانے کو
تو کیا اک بار پھر
پیاسے ہی مر جائیں گے ہم دونوں
بھٹکتی آتما بن کر بکھر
جائیں گے ہم دونوں
ہماری آتما سُکھ سے
کہیں تو جاگتی سوتی
سُنا ہے پیار میں نروان
کی منزل نہیں ہوتی
ہمیشہ ہر جنم میں، ہر
گھڑی دُکھ سہنا پڑتا ہے
قریب آکر بھی اکثر
فاصلوں پر رہنا پڑتا ہے
یہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن
مرا وعدہ ہے اے جاناں
کسی اگلے جنم میں پھر
ملاقات آپ سے ہوگی
مونالیزا
آخر وہ میرے قد کی بھی
حد سے گزر گیا
کل شام میں تو اپنے ہی
سائے سے ڈر گیا
مٹھی میں بند کیا ہوا
بچوں کے کھیل میں
جگنو کے ساتھ اس کا
اجالا بھی مر گیا
کچھ ہی برس کے بعد تو
اس سے ملا تھا میں
دیکھا جو میرا عکس تو آئینہ
ڈر گیا
ایسا نہیں کہ غم نے
بڑھا لی ہو اپنی عمر
موسم خوشی کا وقت سے
پہلے گزر گیا
لکھنا مرے مزار کے کتبے
پہ یہ حروف
"مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا"
قتیل شفائی
رُو برو وہ ہے عبادت کر
رہا ہوں
اُس کے چہرے کی تلاوت
کر رہا ہوں
لو خریدو اِک نظر کے
مول مجھ کو
اپنی قیمت میں رعایت کر
رہاہوں
لی ہے صبر و ضبط نے مجھ
سے اجازت
اپنے مہمانوں کو رُخصت
کر رہاہوں
چھِن گیا مُلکِ جوانی
بھی تو کیا غم؟
اب بھی یادوں پر حکومت
کر رہاہوں
کوئی بھی غم اُس کو
لوٹایانہیں ہے
یوں امانت میں خیانت کر
رہاہوں
اُ س نے تو بس اِک ذرا
سی بات چھیڑی
میں وضاحت پر وضاحت کر
رہاہوں
عشق کر کے آپ بھی بن
جائیں انساں
شیخ صاحب کو نصیحت کر
رہا ہوں
عاشقی طوفانِ گریہ
چاہتی ہے
اور میں آہوں پر قناعت
کر رہا ہوں
آسماں جو شخص ہے سب کی
نظر میں
اُس کو چھو لینے کی
جُرات کر رہا ہوں
میں نے دیکھا ہے قتیل
اُس کا سراپا
میں کہاں ذکرِ قیامت کر
رہاہوں
Rou Baro Woh Hay ibaadat Kar Raha Houn
Us K Chehray Ki Tilawat Kar Raha Houn
Lo Khareedo Ek Nazar K Moal Mujh Ko
Apni Qeemat Main Riayat Kar Raha Houn
Li Hay Sabr-o-Zabt Nay Mujh Say ijazat
Apnay Mehmanoun Ko Rukhsat Kar Raha Houn
Chin Gaya Mulk-e-Jawani Bhi To kaya Gham
Ab Bhi Yadoun Par Hakoomat Kar Raha Houn
Koi Bhi Gham Usko lotaya Nahein Hay
Youn Amanat main Khayanat Kar Raha Houn
Us Nay Tou Ek Zara Si Baat Chairi
Main Wazahat par Wazahat Kar Raha Houn
Ishq Kar K Aap Bhi Ban Jayen insaan
Sheikh Sahib Ko Naseehat Kar Raha Houn
Aashqui Toofan-e-Girya Chahti Hay
Aur Main Aahoun par Qanaat Kar Raha Houn
Asmaan Jo Shakhs Hay Sab Ki Nazar Main
Usko Choo Lainay Ki Jurrat Kar Raha Houn
Main Nay Daikha Hay Qateel Uska Sarapaa
Maian Kahan Zikr-e-Qayamat Kar Raha Houn
Haalat Ke Qadmo'n Pe Qalandar Nahi Girta
Tootay Bhi Jo Taara To Zameen Par Nahi Girta
Girtay Hain Samundar Main Baray Shauq Say Darya
Lakin Kisi Darya Main Samundar Nahein Girta
Samjho Wahan Phaldaar Shajar Koi Nahi Hai
Wo Sehan Ke Jis Main Koi Patthar Nahi Girtaa
Itna To Hua Fayeda Baarish Ki Kami Se
Is Shehr Main Ab Koi Phisal Kar Nahi Girta
Mashkook Nazar Say Mujhy Tak’ti Hay Yeh Dharti
Kuin Arsh-e-Mualla Mere Sir Par Nahein Girta
Inaam Ke Laalach Main Likhay Madh'a Kisi Ki
Itna To Kabhi Koi Sukhanwar Nahi Girta
Hairaan Hay Kayi Roz Say Thehra Hua Paani
Talaab Main Ab Kuin Koi Kankar Nahein Girta
Us Banda-E-Khud'daar Pe Nabiyo'n Ka Hai Saaya
Jo Bhook Main Bhi Luqma-E-Tar Par Nahi Girta
Karna Hai Jo Sar Marka-E-Zeest To Sun Le
Be-Baazo-E-Haider, Dar-E-Khaibar Nahi Girtaa
Qayam Hai "Qateel" Ab Ye Meray Sar Ke Satoon Par
Bhunchaal Bhi Aaye To Mera Ghar Nahi Girta...!!!
Qateel Shifai
حالات کے قدموں پہ
قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں
پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے
شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں
سمندر نہیں گرتا
سمجھو وہاں پھلدار شجر
کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی
پتھر نہیں گرتا
اِتنا تو ہوا فائدہ
بارش کی کمی کا
اِس شہر میں اب کوئی
پھسل کر نہیں گرتا
مشکوک نظر سے مجھے تکتی
ہے یہ دھرتی
کیوں عرشِ معلّٰی مرے
سر پر نہیں گرتا
انعام کے لالچ میں لکھے
مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی
سخنور نہیں گرتا
حیراں ہے کئی روز سے
ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی
کنکر نہیں گرتا
اس بندۂ خوددار پہ
نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمۂ
تر پر نہیں گرتا
کرنا ہے جو سر معرکۂ
زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ
خیبر نہیں گرتا
قائم ہے قتیل اب یہ مرے
سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا
گھر نہیں گرتا
قتیل
شفائی
کُچھ ذی ہُنر جو بے
ہُنروں کی طرح جیے
اپنے ہی گھر میں در
بدروں کی طرح جیے
انساں کو چاہیے کہ
مسافر نواز ہو
جِتنا جیے ہرے شجروں کی
طرح جیے
رکھے وہ اپنی آنکھوں پہ
اپنا بریدہ سر
جو چاہتا ہو دیدہ وروں
کی طرح جیے
جن کے سُروں میں کیف
تھا اوروں کے واسطے
ہم اُن اُداس نغمہ گروں
کی طرح جیے
جھکنا قتیل ہم کو نہ
آیا تمام عمر
جب تک جیے کشیدہ سروں
کی طرح جیے
Kuch Zii Hunar Jo Bay Hunroun Ki Tarah Jiye
Apnay Hi Ghar Main Dar Badroun Ki Tarah Jiye
Insaan ko Chahye Kah Musafir Nawaz Ho
Jitna Jiye Haray Shajroun Ki Tarah Jiye
Rakhay Woh Apni Aankhoun pah Apna Bareedah Sir
J o Chahta Ho Deedah Waroun Ki Tarah Jiye
Jin K Surroun Main Kaif Tha Auroun K Waastay
Ham Un Udaas Naghma Garoun Ki Tarah Jiye
Jhukna Qateel Ham Ko Nah Aaya Tamam Umar
Jab Tak Jiye Kasheeda Surooun Ki Tarah Jiye
نیا عہد نامہ
قسم ہے ہمیں اپنے تازہ
لہو کی
قسم زندگی کی، قسم آبرو
کی
گھر اپنا کسی کو جلانے
نہ دیں گے
وطن پر کبھی آنچ آنے نہ
دیں گے
سدا ہم رہیں گے وطن کے
نگہباں
وطن اپنا کعبہ، وطن
اپنا ایماں
یہ پربت، یہ جھرنے، یہ
اشجار اس کے
یہ جنگل، یہ صحرا، یہ
گلزار اس کے
کسی کی بھی رونق مٹانے
نہ دیں گے
وطن پر کبھی آنچ آنے نہ
دیں گے
اگر کوئی سوچے بہک
جائیں گے ہم
گرج کر یہ بات اس کو
سمجھائیں گے ہم
کوئی فرق ہم بھائیوں
میں نہیں ہے
وطن ایک ہے ایک اپنی
زمیں ہے
دلوں کا یہ رشتہ گھٹانے
نہ دیں گے
وطن پر کبھی آنچ آنے نہ
دیں گے
رہا ہے سدا تفرقہ جن کا
پیشہ
ہوئے ہیں وہ قوموں میں
رُسوا ہمیشہ
جو نفرت بڑھا کر وطن
بیچتے ہیں
وہ اپنی ہی ماں کا کفن
بیچتے ہیں
انہیں ہم یہ سودا چکانے
نہ دیں گے
وطن پر کبھی آنچ آنے نہ
دیں گے
یہ ہنستا مسکراتا دن،
یہ گاتا گنگناتا دن
جسے جذبوں سے ہم آراستہ
ہر سال کرتے ہیں
یہ دن وہ ہے ، نہیں
رقصِ زُباں جس کےلئے کافی
ہم اپنے وجدِ جاں سے اس
کا استقبال کرتے ہیں
بڑھے حد سے زیادہ جب
ستم تاریک راتوں کے
ہوئے تب آخرِ شب کچھ
اُجالے مہرباں ہم پر
اجالوں کے جلو میں آج
کا دن اس طرح آیا
کہ جیسے تن گیا ہو
روشنی کا سائباں ہم پر
سُنو! اے سر زمیں پاک
کے حسّاس باشندو!
بڑی مشکل سے ہم نے
روشنی کا تاج پہنا ہے
لڑے تھے ہم کبھی جن سے
بحکمِ قائداعظمؒ
ہمیشہ ان اندھیروں سے
ہمیں لڑتے ہی رہنا ہے
Yeh Hansta Muskurata, Yeh Gaata Gungunata Din
Jisay Jazboun Say Ham Aarasta Har Saal Karty Hain
Yeh Din Woh Hay, Nahein Raqs-e-Zuban Jis K Liye Kaafi
Ham apnay Wajd-e-Jaan Say iska istaqbal Karty Hain
Barhy Hadd Say Zayada Jab Sitam Tareek Ratoun K
Huay Tab Aakhir-e-Shab Kuch Ujalay Meharbaan Ham par
Ujaloun K Jalo Main Aaj Ka Din is tarah Aaya
Kah Jaisay Tann Gaya Hou Roshni Ka Saibaan Ham Par
Suno! Ae Sar Zameen-e-Paak K Hassas Bashindo!
Bari Mushkil Say Ham Nay Roshni Ka Taaj Pehna Hay
Laray Thay Ham Kabhi Jin Say Bahukm-e-Quid-e-Azam
Hamesha Un Andheroun Say Hamain Larty Hi Rehna Hay
QateelShifai
چاندی جیسا رنگ ہے تیرا
سونے جیسے بال
ایک تو ہی دھنوان ہے
گوری ،باقی سب کنگال
ہر آنگن میں سجے نہ
تیرے اُجلے روپ کی دھوپ
چھیل چھبیلی رانی تھوڑا
گھونگھٹ اور نکال
بھر بھر نظریں دیکھیں
تجھ کو آتے جاتے لوگ
دیکھ تجھے بدنام نہ کر
دے یہ ہرنی سی چال
کِتنی سُندر نار ہوکوئی
میں آواز نہ دوں
تجھ سا جس کا نام نہیں
ہے وہ جی کا جنجال
سامنے تو آئے تو دھڑکیں
مل کر لاکھوں دل
اب جانا، دھرتی پر کیسے
آتے ہیں بھونچال
بیچ میں رنگ محل ہے
تیرا کھائی چاروں اور
ہم سے ملنے کی اب گوری
تو ہی راہ نکال!
کر سکتے ہیں چاہ تیری
اب سرمد یا منصور
ملے کسی کو دار یہاں
اور کھنچے کسی کی کھال
جتنا تجھے دیکھوں اتنی
بڑھے نظر کی پیاس
جو کچھ تیرے پاس ہے
گوری نہیں کسی کے پاس
یہ زلفیں یہ ہونٹ گلابی
یہ آنکھیں یہ گال
ایک تو ہی دھنوان ہے
گوری باقی سب سب کنگال
جب تک سر پر آسمان ہے
پیروں تلے زمین
تب تک تیری چاہت کا ہے
پورا مجھے یقین
تو نے میرا ساتھ دیا تو
جئے ہزاروں سال
ایک تو ہی دھنوان ہے
گوری باقی سب سب کنگال
آج کی رات بھی ہے کچھ
بھاری لیکن یار قتیل
تو نے ہمارا ساتھ دیا
تو جئے ہزاروں سال
Chaandi jaisa Rang Hay Tera Sonay Jaisay Baal
Aik Tou’hi Dhanwaan Hay Gori Baki Sab Kangaal
Har Aangan Main Sajay Nah Tere Ujlay Roop Ki Dhoop
Chail Chabili Raani Thora Ghounghat Aur Nikal
Bhar Bhar Nazrain Daikhain Tujhko Aatay Jaatay Log
Daikh Tujhay Badnaam Nah Kar Day Yeh Hirni si Chaal
Kitni Sundar Naar Ho Koi Main Awaaz Nah Doun
Tujh Sa Jis Ka Naam Nahein Hay Woh Ji Ka Janjaal
Saamnay Tou Aaye To Dharkain Mil Kar lakhoun Dil
Ab Jaana,Dharti Par kaisay Aatay Hain Bhonchaal
Beech main Rang Mahal Hay Tera Khai Charoun Aur
Ham Say milnay Ki Ab Gori To Hi Raah Nikaal
Kar Saktay Hain Chaah Teri Ab Sarmad Ya Mansoor
Milay Kisi Ko Daar Yahan Aur Khinchay Kisi Ki Khaal
Jitna Tujhko Daikhun Utni Barhay Nazar Ki Payaas
Jo Kuch Tere Paas Hay Gori Nahein Kisi K Pas
Yeh Zulfain Yeh Hont Gulaabi Yeh Aankhain Yeh Gaal
Aik Tou Hi Dhanwaan Hay Gori Baqi Sab Kangaal
Jab Tak Sir Par Asmaan Hay Pairoun Talay Zameen
Tab Tak Teri Chahat Ka Hay Poora Mujhay Yaqeen
Tou Nay Mera Saath Dia Tou Jiye Hazaaroun Saal
Aik Tou Hi Dhanwaan Hay Gori Baqi Sab Kangaal
Aaj Ki Raat Bhi Hay Kuch Bhaari lakin Yaar Qateel
To Nay Hamara Saath Diya To Jiye Hazaroun Saal
0 Comments
Dear Visitors please don't send bad comment and don't share spam links.thank you for your support.