Noshi Gilani

 Noshi Gilani Poetry in Urdu

 

Noshi Gilani
Noshi Gilani

 

اس کے آنے کا انتظار رہا

جو میرے شہر سے گیا ہی نہیں

نوشی گیلانی

 

زندگی میں , تیری ضرورت کو

ھم نے کم کر دیا , تو کیا ھو گا ؟؟

نوشی گیلانی

 

بات جیسی بے معنی ، بات اور کیا ھو گی

بات سے مکرنے میں ، دیر کتنی لگتی ھے

نوشی گیلانی

 

تمام عُمر تعلّق سے مُنحرف بھی رہے

تمام عُمر اِسی کو مگر بچایا ہے

نوشی گیلانی

 

ہمارے درمیاں عہدِ شبِ مہتاب زندہ ہے

ہوا چپکے سے کہتی ہے ابھی اک خواب زندہ ہے

نوشی گیلانی

 

اِس شہر میں کتنے چہرے تھے، کچھ یاد نہیں سب بُھول گئے

اِک شخص کِتابوں جیسا تھا، وُہ شخص زبانی یاد ہُوا

نوشی گیلانی

 

وہ تیرگی تھی لفظوں کو راستہ نہ ملا

کوئی چراغ قبیلہ مرے ہُنر کے لیے

نوشی گیلانی

 

دل پر ہوتے جبر ابھی دیکھے ہی نہیں ہیں

تم نے اہلِ صبر ابھی دیکھے ہی نہیں ہیں

نوشی گیلانی

 

سوچ رہے ہیں صبح تلک اِک بار بھی آنکھ نہیں جھپکی

اب تو تیرے ہجر میں ہم نے پہلی رات گزاری ہے

نوشی گیلانی

 

قریب تھا تو کسے فُرصت محبّت تھی

ہُوا ہے دُور تو اُس کی وفائیں یاد آئیں

نوشی گیلانی

 

آج دیکھو زمیں کے سینے پر

اُس کے چہرے کی دھوپ پھیلی ہے

نوشی گیلانی

 

خیال و خواب کے منظر سجانا چاہتا ہے

یہ دل کا اِک تازہ بہانہ چاہتا ہے

نوشی گیلانی

 

روشنیوں کے سارے منظر جھُوٹے لگتے ہیں

لیکن اُس کی آنکھ کے آنسو سچے لگتے ہیں

نوشی گیلانی

 

محّبت میں کہیں گم ہو گیا ہے

مِرا تجھ پر یقیں کم ہو گیا ہے

نوشی گیلانی

 

اِک چادر سخن ہی بچا کر نکل چلیں

رستہ مِلے تو شہر سے باہر نکل چلیں

نوشی گیلانی

 

مرقدِ عشق پہ اَب اور نہ رویا جائے

رات کا پچھلا پہر ہے چلو سویا جائے

نوشی گیلانی

 

ہجر کی شب میں قید کرے یا صُبحِ وصال میں رکھے

اچھّا مولا!تیری مرضی تُو جس حَال میں رکھے

نوشی گیلانی

 

خرچ اِتنا بھی نہ کر مُجھ کو زمانے کیلئے

کُچھ تو رہ جاؤں میں کام اپنے بھی آنے کیلئے

نوشی گیلانی

 

اُس نے ہنس کے دیکھا تو مُسکرا دیے ہم بھی

ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

نوشی گیلانی

 

بھلا اُس کے دُکھوں کی رات کا کیسے مداوا ہو

وہ ماں جس کو کبھی کھویا ہوا بچہ نہیں ملتا

نوشی گیلانی

 

خواہش کے اظہار سے ڈرنا سِیکھ لیا ہے

دِل نے کیوں سمجھوتہ کرنا سِیکھ لیا ہے

نوشی گیلانی

 

وفاں کے تسلسل سے محبت روٹھ جاتی ہے

کہانی میں ذرا سی بے وفائی مانگتے رہنا

نوشی گیلانی

 

جس طرح ماں کی دعا ہوتی ہے

شاعری ردّ ِبلا ہوتی ہے

نوشی گیلانی

 

تجھ سے اب اور محبت نہیں کی جا سکتی

خود کو اتنی بھی اذیت نہیں دی جا سکتی

نوشی گیلانی

 

تیرے روکے سے وہ بَد عہد کہاں رکتا ہے

پاؤں چھونے سے تو بہتر ہے اُسے جانے دے

نوشی گیلانی


عمر رواں کو غم کا پیکر نہ ہونے دینا

آنکھیں عزیز رکھنا پتھر نہ ہو نے دینا

نوشی گیلانی


تِرے حرف و لب کا طلسم تھا مِری آب و تاب میں رہ گیا

وہ کِسی گلاب کا عکس تھا، جو مِری کتاب میں رہ گیا

میں کہاں سراپائے ناز تھی، مجھے یاد ہے شبِ تیرگی

وہ کسی کے لَمس کا معجزہ جو مِرے شباب میں رہ گیا

مِری بات بات میں روشنی، مِرے حرف حرف میں دلکشی

تُو مِرے شریکِ وصالِ جاں! مِری ہر کتاب میں رہ گیا

دلِ خوش گماں تِری خیر ہو، تُو ہے پھر یقیں کی صلیب پر

تجھے پھر کسی سے شکایتیں، تُو اسی عذاب میں رہ گیا

تجھے کیا مِلا دلِ مبتلا! نہ کوئی دعا، نہ کہیں وفا

مگر ایک عرصۂ رائیگاں، جو تِرے حساب میں رہ گیا

کوئی پھول کِھل کے بکھر گیا، کوئی بات بن کے بگڑ گئی

نہ سوال کوئی لبوں پہ ہے، نہ گِلہ جواب میں رہ گیا

وہ جو میرا عہدِ جمال تھا، وہ جو میرا شہرِ خیال تھا

مگر اس کا ذکرِ کمال بھی کہیں دشتِ خواب میں رہ گیا

نوشی گیلانی

 

 


Post a Comment

0 Comments