Noshi Gilani Profile
نوشی گیلانی
پاکستان کی مقبول ترین شاعرہ "نوشی گیلانی" کا یومِ ولادت 14مارچ1964 ہے۔
اردو شاعری میں جہاں خواتین شعراء کا ذکر آتا
ہے، وہیں پروین شاکر، شبنم شکیل اور کشور ناہید کے ساتھ ایک اور جس شاعرہ کا نام
آتا ہے وہ ہے نوشی گیلانی، دنیا کے جن جن خطوں میں اردو بولی یا سمجھی جاتی ہے،
وہاں ان کی شاعری کو بےحد سراہا گیا۔
نوشی گیلانی 14 مارچ 1964ء کو بہاولپور میں پیدا
ہوئیں ، والد مسعود احمد گیلانی ڈاکٹر اور والدہ ٹیچر تھیں۔ پانچ بہن بھائیوں میں
پہلے نمبر پر ہیں ۔ پہلی اولاد ہونے کے باعث والد کے زیادہ قریب تھیں۔ بچپن ماں
باپ کے لاڈ اور شرارتوں میں گزرا۔ خاندانی نام سیدہ نشاط رکھا گیا، لیکن ابو گھر
میں نوشی کہہ کر بلاتے، پھر انہی کی منشا پر قلمی نام نوشی منتخب کیا۔
کالا اور گیروی رنگ شروع سے ہی بھاتا ہے۔ گھر کا
ماحول ادبی تھا، والدہ کا مضمون فارسی تھا، اس پہ بھی توجہ رہی، حتٰی کہ چھٹیوں
میں بھی کوئی نہ کوئی کورس جاری رہتا، ایف ایس سی کے بعد پولیٹیکل سائنس کا انتخاب
ہوا، اگرچہ سیاست اور انگریزی سے بھی لگاؤ تھا۔ امریکہ گئیں تو فنانس پڑھ کر
بینکنگ کا شعبہ چنا اور ترجیح ہوم فنانسنگ کو دی۔ آپ کی شخصیت کی تعمیر و تربیت
میں والدہ کا عمل دخل زیادہ رہا۔ آپ نے شاعری کی ابتداء مزاحیہ شاعری سے کی، پھر
سنجیدہ شاعری کی طرف راغب ہوئیں،
ابتدائی دور کا ایک شعر ہے
عمر رواں کو غم کا پیکر نہ ہونے دینا
آنکھیں عزیز رکھنا پتھر نہ ہو نے دینا
صوفیانہ کلام سے خصوصی لگاؤ تھا، بابا بلھے شاہ
کی شاعری کا ہمیشہ مطالعہ رہا، مطالعہ کا شوق گھر سے ہی پروان چڑھا، گھر میں موجود
لائبریری میں ادب کی بےشمار کتب تھیں، جن کے مطالعے نے میرے ذہن کو جلا بخشی۔
ماسٹر پوزیشن کے ساتھ کیا، اور تدریس کا آغاز کیا، تاریخ اور کلاسیکل شاعری کے
مضمون پڑھائے، انہی دنوں بطور شاعرہ بھی شہرت پا رہی تھیں۔ انہی دنوں چشتیاں
میں"عالمی مشاعرہ" منعقد ہوا جس میں احمد ندیم قاسمی اور احسان دانش
جیسے عظیم شعراء نے شرکت کی، آپ کے لیے یہ بات قابل فخر ہے کہ زندگی کے پہلے
مشاعرے میں ان عظیم شعراء کو اپنا کلام سنانے کا موقع ملا، اور داد بھی ملی۔
آپ نے ریڈیو کے ذریعے بھی اپنی پہچان بنائی،
عباس نجمی کے پروگرام "ینگ ٹیلنٹ" میں بطور طالبہ شریک ہو کر اپنا
پنجابی کلام سنایا۔ اب وہ اپنا پنجابی کلام جمع کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ
پنجابی کے وارثین کو پنجابی شعراء کے کلام کو محفوظ کرکے اس نایاب ورثے کی حفاظت
کا بیڑا اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ یہ زبان ہی ہماری بقاء کی ضامن ہے، اور ہمارے بقاء
کی جنگ لڑتی آ رہی ہے۔ پروین شاکر اور شبنم شکیل سے ملاقات ہوئی بلکہ جب ان کا
پہلا مجموعہ "محبتیں جب شمار کرنا" شائع ہوا تو انہوں نے نا صرف فون پہ
مبارکباد دی بلکہ اس پہ ایک مضمون بھی لکھا۔ دیکھا جائے تو ان شاعرات نے ہمارے لیے
راستے بنائے ہیں، البتہ منفی قوتیں ہر شعبے میں ہوتی ہیں۔
آج سے تیس سال پہلے عورت کو سماجی طور پر وہ
مقبولیت حاصل نہ تھی جو آج ہے۔ کل اور آج کی ادبی محافل اور نشستوں میں بہت فرق آ
چکا ہے، پہلے مشاعرے کے بعد ہونے والی نشست میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا تھا،
اب معاملہ کچھ اور ہے، شہرت کی طلب تخلیقی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے۔ فقیری اور
چیز ہے۔
آپ کو بابا بلھے شاہ کی مریدنی ہیں۔ سرکاری سطح
پر ادب کی ترقی و ترویج کا کام بہت کم ہو گیا ہے، لوگ صاحب اقتدار افراد کی خدمت میں
مصروف ہیں، اسب پس منظر میں چلا گیا ہے۔ اور ایسے اداروں کا کردار دیانت دارانہ
نہیں ہے۔ نئی نسل کی شاعری کے حوالے سے آپ پُرامید ہیں، کئی خواتین شعراء لکھ رہی
ہیں لیکن جب شاعری میں ستائش کی دھول شامل ہو جاتی ہے تو شاعری پُر اثر نہیں رہتی۔
فنا فی ذات فن کی پہلی شرط ہے اور شاید آخری بھی۔ بیرونِ ملک قیام کے حوالے سے آپ
مے امریکہ کی سیاسی فضا کو سراہا کہ وہاں کی فضا جمہوریت کے لئے بہت اچھی ہے، ہر
جماعت پہ ذمہ داری عائد ہے کہ اپنے ورکرز کی تربیت کرے۔
آپ کا کہنا تھا کہ فن لکھنے والے لکھتے رہیں گے، پڑھنے والے پڑھتے رہیں گے، سفر جاری رہے گا۔ بس ان کا خواب ہے کہ پاکستان میں معذور بچوں کے لئے ایک سکول بنوائیں۔ اور اپنے وطن میں گھر بنائیں کیا خبر یہ مٹی کب جگہ دیتی ہے؟ اب تک ان کے چار شعری مجموعے؛ "محبتیں جب شمار کرنا، اداس ہونے کے دن نہیں ہیں، ہوا چپکے سے کہتی ہے اور پہلا لفظ محبت لکھا" منظر عام پر آ چکے ہیں۔ پانچواں زیرِ طبع ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان ملک میں سات سال لکھے کالم پہ بھی کام جاری ہے۔ پاکستان
پوسٹ میں بھی لکھتی ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
اردو ادب کی نامور شاعرہ محترمہ نوشی گیلانی صاحبہ کے کلام سے چند متفرق اشعار آپ احباب کی نذر ہیں
اس کے آنے کا انتظار رہا
جو میرے شہر سے گیا ہی نہیں
زندگی میں , تیری ضرورت کو
ھم نے کم کر دیا , تو کیا ھو گا ؟؟
بات جیسی بے معنی ، بات اور کیا ھو گی
بات سے مکرنے میں ، دیر کتنی لگتی ھے
تمام عُمر تعلّق سے مُنحرف بھی رہے
تمام عُمر اِسی کو مگر بچایا ہے
ہمارے درمیاں عہدِ شبِ مہتاب زندہ ہے
ہوا چپکے سے کہتی ہے ابھی اک خواب زندہ ہے
اِس شہر میں کتنے چہرے تھے، کچھ یاد نہیں سب بُھول گئے
اِک شخص کِتابوں جیسا تھا، وُہ شخص زبانی یاد ہُوا
وہ تیرگی تھی لفظوں کو راستہ نہ ملا
کوئی چراغ قبیلہ مرے ہُنر کے لیے
دل پر ہوتے جبر ابھی دیکھے ہی نہیں ہیں
تم نے اہلِ صبر ابھی دیکھے ہی نہیں ہیں
سوچ رہے ہیں صبح تلک اِک بار بھی آنکھ نہیں جھپکی
اب تو تیرے ہجر میں ہم نے پہلی رات گزاری ہے
قریب تھا تو کسے فُرصت محبّت تھی
ہُوا ہے دُور تو اُس کی وفائیں یاد آئیں
آج دیکھو زمیں کے سینے پر
اُس کے چہرے کی دھوپ پھیلی ہے
خیال و خواب کے منظر سجانا چاہتا ہے
یہ دل کا اِک تازہ بہانہ چاہتا ہے
روشنیوں کے سارے منظر جھُوٹے لگتے ہیں
لیکن اُس کی آنکھ کے آنسو سچے لگتے ہیں
محّبت میں کہیں گم ہو گیا ہے
مِرا تجھ پر یقیں کم ہو گیا ہے
اِک چادر سخن ہی بچا کر نکل چلیں
رستہ مِلے تو شہر سے باہر نکل چلیں
مرقدِ عشق پہ اَب اور نہ رویا جائے
رات کا پچھلا پہر ہے چلو سویا جائے
ہجر کی شب میں قید کرے یا صُبحِ وصال میں رکھے
اچھّا مولا!تیری مرضی تُو جس حَال میں رکھے
خرچ اِتنا بھی نہ کر مُجھ کو زمانے کیلئے
کُچھ تو رہ جاؤں میں کام اپنے بھی آنے کیلئے
اُس نے ہنس کے دیکھا تو مُسکرا دیے ہم بھی
ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
بھلا اُس کے دُکھوں کی رات کا کیسے مداوا ہو
وہ ماں جس کو کبھی کھویا ہوا بچہ نہیں ملتا
خواہش کے اظہار سے ڈرنا سِیکھ لیا ہے
دِل نے کیوں سمجھوتہ کرنا سِیکھ لیا ہے
وفاں کے تسلسل سے محبت روٹھ جاتی ہے
کہانی میں ذرا سی بے وفائی مانگتے رہنا
نوشی گیلانی
0 Comments
Dear Visitors please don't send bad comment and don't share spam links.thank you for your support.