Ada Jafri Poetry and Ghazals in Urdu

 Ada Jafri Poetry and Ghazals in Urdu

Ada Jafri Poetry
 Ada Jafri Poetry

 

نام اُنﷺ کا ادا ہو بھی نہ پایا ہے زُباں سے

دل میں یہ اُجالے اُتر آئے ہیں کہاں سے

اداجعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤ 

ان کے در کے سوا اور پہچان کوئی ہماری نہیں

چاہو اپنی نگاہوں میں جب آبرو تب اُنہیںﷺ سوچنا

اداجعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

پیامِ زندگیٔ نو نہ بن سکِیں صد حیف

یہ اُودی اُودی گھٹائیں، یہ بھیگی بھیگی بہار!

اداجعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

وہ آئیں گے تو آئیں گے جنون ِشوق اُبھارنے

وہ جائیں گے تو جائیں گے خرابیاں کیے ہوئے

اداجعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

آپ ہی مرکزِ نگاہ رہے

جانے کو چا ر سو نگاہ گئی

اداجعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

یہ پھر کس نے دزدیدہ نظروں سے دیکھا

مچلنے لگے سینکڑوں شوخ ارماں!

اداؔ جعفری 

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

یہ کس نے نقاب اپنے رخ سے الٹ دی

گلے مل رہے ہیں بہم کفر و ایماں

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

شاید کسی نے یاد کیا ہے ہمیں اداؔ

کیوں ورنہ اشک مائلِ طوفاں ہے آج پھر

اداؔ جعفری

  ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

کیا اپنا حال احوال کہیں

جگ بیتے ہیں تصویر ہوئے

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

یہ بے بسی، یہ سرکشی، لگاؤ بھی، کھنچاؤ بھی

سراب کی طرح ملے، کہاں سراب لے چلوں

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

اک پھول ہے، وہ زینتِ گیسو سہی، مگر

اس انجمن میں چاک گریباں کوئی تو ہے

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

لہو لہان انگلیاں ہیں اور چپ کھڑی ہوں میں

گل و سمن کی بے پناہ چاہتوں کے درمیاں

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں

سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

تمام عمر کا حاصل ہے ، بے رخی ہی سہی

زہے نصیب !مقدر کو سونپ جاؤ مجھے

ادا جعفری

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

 

پیامِ زندگیٔ نو نہ بن سکیں صد حیف

یہ اُودی اُودی گھٹائیں، یہ بھیگی بھیگی بہار!

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

مرے حرف حرف کے ہاتھ میں سبھی آئینوں کی ہیں کرچیاں

جو زباں سے ہو نہ سکا ادا ؔبہ حدود بے سخنی کہا

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

کوئی تو راہِ تمنّا میں ہم سفر ہوتا

کوئی تو کوئے وفا میں خطا شعار ملے

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

میں معجزہ ہوں وفاؤں کی بیکرانی کا

ابھی ہے وقت ، ابھی اور آزماؤ مجھے

اداؔ جعفری

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤ 

تمام عمر کا حاصل ہے ، بے رخی ہی سہی

زہے نصیب !مقدر کو سونپ جاؤ مجھے

ادا جعفری

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤  

اندیشے - ادا جعفری

بس آج روبرو نہ ہو

شکستہ آئینوں کے

زخم زخم عکس میں

خدا کرے کہ تو نہ ہو

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

جو دل ستارہ خو نہ ہو - ادا جعفری

جو دل ستارہ خو نہ ہو

نہ بادباں کھُلے کبھی

نہ سائباں ملے کہیں

پناہ چار سو نہ ہو

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

خالی ہاتھ - ادا جعفری

جب اس کے ساتھ تھی

میں اس وسیع کائنات میں

نفس نفس، قدم قدم

نظر نظر امیر تھی

اور اب

غبارِ روزوشب کے

جام میں اسیر ہوں

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤


کہ وہ اب تک نہیں پلٹا

اُجالا سسکیاں لیتا رہا گھر میں

دیا دہلیز پر جلتا رہا

جس کو

کسی جاں بخش ساعت میں

مقدس آگ سے روشن کیا اُس نے

وہ انساں دیوتا تھا یا مسیحا تھا

وہ بھولا تو نہیں ہوگا

نہ جانےبے وفا دنیا کے کتنے کام تھے اس کو

نہ جانے کتنے دھندے تھے

کہ وہ اب تک نہیں پلٹا

دیا تو صبح ہونے تک سدا جلتا ہی رہتا ہے

کوئی اتنا بتا دیتا

کہ وہ جن راستوں میں ہے

وہاں اس کو اندھیرا تو نہیں ملتا!

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ایک بے وفا لمحہ - ادا جعفری

ہوا کاسنی ہے

اندھیری صداؤں کے

جنگل میں ہوں

اور دُعا کھو گئی ہے

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

نعتیہ اشعار - ادا جعفری

تری یاد دل کو متاعِ گرامی

ترا نام لب پر کمالِ عبادت

چراغاں چراغاں نقوشِ کفِ پا

کہیں ماہِ تاباں، کہیں مہرِ طلعت

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

کفارہ - ادا جعفری

دل

جو تم نے توڑدیا ہے

البیلے خوابوں کا کفارہ ہے!

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

مجبوریاں - ادا جعفری

بے سبب بھی ہوتا ہے

برملا بھی ہوتا ہے

بھولنا جسے چاہیں بار بار یاد آئے

دل شکن بھی ہوتا ہے

دل ربا بھی ہوتا ہے

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

دل سوالی نہ ہوا، آنکھ تہی جام نہیں

میری پہچان کوئی آرزوئے خام نہیں

دل کی تنہائی کا اندازِ سخن تو دیکھو

کونسی سانس ہے ایسے میں جو الہا م نہیں

یاد کرنوں سے نکھرتے ہیں گُلابی لمحے

اس سحر میرے تعاقب میں کوئی شا م نہیں

کون کہتا ہے کہ آنگن میں نہ اترا سورج

کیا یہی ساعتِ دز دیدہ ترے نا م نہیں

دل میں جو پھول کھلا جاں کے مقابل آیا

داستاں اور کوئی اتنی خوش انجا م نہیں

آنچ ایسی کہ پگھل جاتی ہیں پتھر آنکھیں

ہے شعلۂ اظہار، تہِ دا م نہیں

زہر نس نس میں اتر جائے تو فن کہلائے

ہم نے برتا ہے اداؔ جس کو وہ غمِ عا م نہیں

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

گلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں

ہم ایسے لوگ اب ملیں حکایتوں کے درمیاں

لہو لہان انگلیاں ہیں اور چپ کھڑی ہوں میں

گل و سمن کی بے پناہ چاہتوں کے درمیاں

ہتھیلیوں کی اوٹ ہی چراغ لے چلوں ابھی

ابھی سحر کا ذکر ہے روایتوں کے درمیاں

جو دل میں تھی نگاہ سی، نگاہ میں کرن سی تھی

وہ داستاں الجھ گئی وضاحتوں کے درمیاں

صحیفہ حیات میں جہاں جہاں لکھی گئی

لکھی گئی حدیثِ جاں جراحتوں کے درمیاں

کوئی نگر ، کوئی گلی، شجر کی چھاؤں ہی سہی

یہ زندگی نہ کٹ سکے مسافتوں کے درمیاں

اب اس کے خدوخال کا رنگ مجھ سے پوچھنا عبث

نگہ جھپک جھپک گئی اردتوں کے درمیاں

صبا کا ہاتھ تھام کر اداؔ نہ چل سکو گی تم

تمام عمر خواب خواب ساعتوں کے درمیاں

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

گلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں

ہم ایسے لوگ اب ملیں حکایتوں کے درمیاں

لہو لہان انگلیاں ہیں اور چپ کھڑی ہوں میں

گل و سمن کی بے پناہ چاہتوں کے درمیاں

ہتھیلیوں کی اوٹ ہی چراغ لے چلوں ابھی

ابھی سحر کا ذکر ہے روایتوں کے درمیاں

جو دل میں تھی نگاہ سی، نگاہ میں کرن سی تھی

وہ داستاں الجھ گئی وضاحتوں کے درمیاں

صحیفہ حیات میں جہاں جہاں لکھی گئی

لکھی گئی حدیثِ جاں جراحتوں کے درمیاں

کوئی نگر ، کوئی گلی، شجر کی چھاؤں ہی سہی

یہ زندگی نہ کٹ سکے مسافتوں کے درمیاں

اب اس کے خدوخال کا رنگ مجھ سے پوچھنا عبث

نگہ جھپک جھپک گئی اردتوں کے درمیاں

صبا کا ہاتھ تھام کر اداؔ نہ چل سکو گی تم

تمام عمر خواب خواب ساعتوں کے درمیاں

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

نہ غبار میں نہ گلاب میں مجھے دیکھنا

مرے درد کی تب وتاب میں مجھے دیکھنا

میں نہ مل سکوں بھی تو کیا ہوا ،کہ فسانہ ہوں

نئی داستاں ،نئے باب میں مجھے دیکھنا

کسی وقت شامِ ملال میں مجھے سوچنا

کبھی رنگِ چشم پُر آب میں مجھے دیکھنا

کبھی رات ماہ و نجوم سے مجھے پوچھنا

کبھی صبحِ نو کی کتاب میں مجھے دیکھنا

میں جو رات بھر غمِ آفتابِ سحر میں تھی

اُسی شعلہ رو، کے عتاب میں مجھے دیکھنا

اِسی دل سے ہو کے گزر گئے کئی کارواں

کئی ہجرتوں کے نصاب میں مجھے دیکھنا

مرے خار خار سوال میں مجھے ڈھونا

مرے گیت میں، مرے خواب میں مجھے دیکھنا

مرے آنسوؤں نے بجھائی تھی مری تشنگی

اسی برگزیدہ سحاب میں مجھے دیکھنا

وہی ایک لمحہ دید کا تھا کہ رکا رہا

مرے روز و شب کے حساب میں مجھے دیکھنا

جو تڑپ تمہیں کسی آئینے میں نہ مل سکے

تو پھر آئینے کے جواب میں مجھے دیکھنا

اداؔ جعفری

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

جی نہ چاہا اُسے بھلانے کو

اک گھروندا رہا ہے ڈھانے کو

اک ستارہ مژہ پہ روشن ہے

اک دیا رہ گیا بجھانے کو

ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی

پھول بالو ں میں اک سجانے کو

ریزہ ریزہ بکھر گیا انساں

گھر کی ویرانیاں جتانے کو

آنسوؤں کو ترس گئیں آنکھیں

لوگ ہنستے رہے دکھانے کو

سانس کی بات ہو کہ آس اداؔ

سب کھلونے تھے ٹوٹ جانے کو

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

خلشِ تیرِ بے پناہ گئی

لیجیے ان سے رسم و راہ گئی

آپ ہی مرکزِ نگاہ رہے

جانے کو چا ر سو نگاہ گئی

سامنے بے نقاب بیٹھے ہیں

وقعت حُسن مہر و ماہ گئی

اس نے نظریں اُٹھا کے دیکھ لیا

عشق کی جُرات ِ نگاہ گئی

انتہائے جنوں مبارک باد

پرسشِ حال گاہ گاہ گئی

مرمٹے جلد باز پروانے

اپنی سی شمع تو نباہ گئی

دل میں عزمِ حرم سہی لیکن

ان کے کوچہ کو گر یہ راہ گئی

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

تو جانتا ہے

مجھے منظور تھی راحت نہ سکونِ ابدی

میں گنہ گار مجھے سوزِ نہاں کافی تھا

میری دارستگئ جاں کو

جہانِ گزراں کافی تھا

عشرتِ درد کو سمجھا تھا خزینہ اپنا

میں نے سونپا تھا محبت کو سفینہ اپنا

تو نے دیکھا مرے ماتھے پہ لہو کا قشقہ

میری آزردہ ہتھیلی میں لہو کی مہندی

میری مجبور نگاہوں میں لہو کا نوحہ

مری چاہت بھی، مرے خوابِ کرم بھی گھائل

حو تو یہ ہے مرے غم بھی گھائل

پسِ زنداں مرے سرووریحاں

لالہ و گل مرے زنجیر بکف دیکھے ہیں

جانے کس ہاتھ نے، تو جانتا ہے

مرے آنگن کے اُجالوں میں لہو گھول دیا

اور میں زندہ ہوں

زندگی کے کہیں مجھ سے بھی ہدف دیکھے ہیں ؟

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

سرگزشت - ادا جعفری

ان آنکھوں میں

کئی آتے جاتے رنگ رچے

اب ان جانا سا موسم ہے

کسی بام پہ سورج اُترا ہے

کسی گھر آنگن میں اندھیرے ہیں

کچھ سچ تھے جو، اب جھوٹے ہیں

کسی کھیتی خاک برستی ہے

کہیں خرمن چاند ستاروں کے

اب وعدے کچے دھاگے ہیں

ہم دل بہلائے رکھتے ہیں

ہمیں پاس سے آکر دیکھو تو

ابھی ہم خوابوں میں رہتے ہیں

ابھی ہم خوابوں میں رہتے ہیں

نا رُت ہے ساون بھادوں کی

نا پلکیں اب تو سوکھی ہیں

کبھی مرنا بھی کبھی جینا بھی

کوئی جذبہ بے توقیر نہیں

کوئی دیپک بجھنے لگتا ہے

کوئی خوشبو باتیں کرتی ہے

کسی رنج نے شیشہ توڑ دیا

کسی دھیان نے آس جگائی ہے

کسی حرف نے دل پر ہاتھ دھرا

کسی لفظ نے کی ہے سرگوشی

اب ہم سے حقیقت کیا پوچھو

ابھی ان جانا سا موسم ہے

ابھی خوابوں جیسا عالم ہے

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

یہ بستیاں ویراں نہیں - ادا جعفری

نہیں، یہ بستیاں ویراں نہیں

اب بھی یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں

یہ وہ ہیں جو کبھی

زخمِ وفا بازار تک آنے نہیں دیتے

یہاں کچھ خواب ہیں

جو سانس لیتے ہیں

جوان خوابوں کو تم دیکھو تو ڈر جاؤ

فلک آثار بان و در

یہاں وقعت نہیں رکھتے

کلاہ و زر یہاں قیمت نہیں رکھتے

یہ کتنے لوگ ہیں

بے نام ہیں ، بے لاگ ہیں

بے ساختہ جینے کے طالب ہیں

یہ دل کے بوجھ کا احوال

اپنے حرف خود لکھنے کے طالب ہیں

اُجالے کی سخی کرنوں کو

زنداں سے رہائی دو!


❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

رسم وآداب جدا، عفتِ پندار جُدا

ہر قدم پر ہے مرے سامنے دیوار جدا

کنجِ مژگاں سے ستاروں کو رہائی بھی نہیں

اور اُجالوں کو بکھر جانے پہ اصرار جدا

اب کے موسم سبھی کھیتوں میں شرربوئے گئے

اور ہوائیں ملیں شعلوں کی طرفدار جُدا

کوئی پہچان کسی خواب کی رہنے دیتے

آئنوں سے ہوتے کیوں آئینہ بردار جدا

گرنے والوں کو بہانوں کی ضرورت ہی نہ تھی

اور یہاں عذر بھی ملتا رہا ہر بار جدا

میری دنیا میں مجھے تو بھی تو آکر دیکھے

خوف کا بوجھ الگ درد کا بازار جدا

خواب کیا دیکھتی ہو خود ہی کسی خواب سی تھی

رنگ آنسو کا جدا، رنگ گل و خار جدا

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

کوئی سنگِ رہ بھی چمک اُٹھا تو ستارہ ٔسحری کہا

مری رات بھی ترے نام تھی اسے کس نے تیرہ شبی کہا

مرے روز و شب بھی عجیب تھے نہ شمار تھا نہ حساب تھا

کبھی عمر بھر کی خبر نہ تھی کبھی ایک پل کو صدی کہا

مجھے جانتا بھی کوئی نہ تھا مرے بے نیاز ترے سوا

نہ شکست دل نہ شکست جاں کہ تری خوشی کو خوشی کہا

کوئی یاد آبھی گئی تو کیا ،کوئی زخم کھل بھی اٹھا تو کیا

جو صبا قریب سے ہوچلی اسے منتوں کی گھڑی کہا

بھری دوپہر میں جو پاس تھی وہ ترے خیال کی چھاوں تھی

کبھی شاخ گل سے مثال دی ،کبھی اس کو سروسہی کہا

کہیں سنگِ رہ کہیں سنگِ در کہ میں پتھروں کے نگر میں ہوں

یہ نہیں کہ دل کو خبر نہ تھی ،یہ بتا کہ منہ سے کبھی کہا

مرے حرف حرف کے ہاتھ میں سبھی آئینوں کی ہیں کرچیاں

جو زباں سے ہو نہ سکا ادا ؔبہ حدود بے سخنی کہا

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

وں منتظر تیرے لئے، اے نامہ بر، ہم بھی رہے

تلوؤں کے چھالے کیا کہیں کیوں فاصلے بڑھتے رہے

دشتِ وفا کے مرحلے کس آس پر جی نے سہے

راتوں کے سائے رچ گئے پلکوں کی بھیگی چھاؤں میں

اُجلی رُتوں کی چاہ میں آنکھوں کنول جلتے رہے

بے نام سی اک آرزو، بے تاب سی اک تشنگی

اپنی کہانی زندگی کس سے کہے، کیسے کہے

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

یہ عجیب راستے ہیں کوئی ہمسفر کہاں ہے

میں تو خود کو چھوڑ آئی یہ نبیﷺ کا آستاں ہے

یہ دیارِ مصطفی ہے یہاں وقت رک گیا ہے

اسی در پہ روشنی ہے اسی چھاؤں اماں ہے

یہاں عجز کے مراتب یہاں آرزو بھی منصب

بڑا خوش نصیب ہے جو پسِ گردِ کارواں ہے

یہ مقام ہے ادب کا نہ اٹھا سکی ہوں پلکیں

جو چھلک گیا ہے آنسو وہ متاعِ عرضِ جاں ہے

وہ حریمِ پاک ہے یہ جہاں رفعتیں جھکی ہیں

یہ وقارِ ہر دو عالم یہ جمالِ ہر زماں ہے

یہ تجلیوں کا عالم مجھے کیا خبر کہاں ہوں

جو ادا نہ ہو زباں سے وہی حرف ترجماں ہے

ادا جعفری

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

خود حجابوں سا خود جمال سا تھا

دل کا عالم بھی بے مثال سا تھا

عکس میرا بھی آئنوں میں نہیں

وہ بھی کیفیتِ خیال سا تھا

دشت میں سامنے تھا خیمہ گل

دوریوں میں عجب کمال سا تھا

بے سبب تو نہیں تھا آنکھوں میں

ایک موسم کہ لازوال سا تھا

تھا ہتھیلی پہ اک چراغ ِ دعا

اور ہر لمحہ اک سوال سا تھا

خوف اندھیرے کا ڈر اُجالوں سے

سانحہ تھا تو حسبِ حال سا تھا

کیا قیامت ہے حجلہ جاں میں

حال اُس کا بھی میرے حال سا تھا

اداؔ جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

مری زمیں پہ جو موسم کبھی نہیں آیا

یہی بہت ہے کہ اُس پر مجھے یقیں آیا

میں خود ہی ہجر کا موسم، میں خود وصال کا دن

مرے لیے مرا روزِ جزا یہیں آیا

تسلیوں سے کہاں بارِ زندگی اُٹھتا

یقیں تو اپنی وفاؤں پہ بھی نہیں آیا

ان آنسوؤں کا سفر بھی ہے بادلوں جیسا

برس گیا ہے کہیں اور نظر کہیں آیا

رچاؤ درد سا، بھیگا ہوا دعاؤں سا

کہاں سے ہوکے یہ جھونکا مرے قریں آیا

ہم اہلِ ہجر ستارہ شناس بھی تو نہیں

حسیں تھے خواب، سو ہر خواب پر یقیں آیا

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

بے چارگیٔ چارہ گراں - ادا جعفری

دلوں کے حال

چہروں پر لکھے ہیں

وہ

نہ جانے کون ہیں کیوں ہیں

جو کہتے ہیں

ہمیں اندھی رتوں کے ساتھ

رہنا ہی مناسب ہے

بہت پیوند چادر میں لگے ہیں

ابھی رستہ نہیں ڈھونڈیں

ابھی تو پاؤں ننگے ہیں

ابھی تو رزق کے دانوں پہ

اپنا نام پڑھنا دیکھنا ہوگا

ابھی تو سیکھنا ہوگا

ابھی حرفِ دعا ہی

سب کو کافی ہے

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ہدیہ عقیدت - اداجعفری صاحبہ

ذکر اُن ؐ کا ابھی ہو بھی نہ پایا ہے زبان سے

دل میں یہ اُجالے اُتر آئے ہیں کہاں سے

لوں سانس بھی آہستہ کہ یہ جائے ادب ہے

تحریر کروں اسمِ بنی ؐ ہدیہ جاں سے

کرنیں سی چھنک جائیں اِسی حجرہ دل میں

تم اُنؐ کو پُکارو تو حضورِ دل و جاں سے

ہر دور کی اُمید ہیں ہر عہد کا پیماں

پہچان ہے اُنؐ کی نہ زمیں سے نہ زماں سے

وہ جس کی طلبگار ہے خود رحمتِ یزداں

زینت ہے دو عالم کی اُسی سرورواں سے

وہ خیر بشر، حسنِ ازل، نازشِ دوراں

آئینے اُتر آئے ہیں محراب اذاں سے

کیوں قافلے والوں کو ابھی ہوش نہ آیا

منزل تو ملے گیاانھیں قدموں کے نشاں سے

یہ خوف، یہ صحرا، یہ کڑی دھوپ کے تیور

ہے آس بہت آپؐ کے دامانِ داماں سے

اس نام کی خوشبو ہے وسیلہ بھی صلہ بھی

گزرے ہے صبا جیسے جہانِ گزراں سے

ذکر اُنؐ کا ادا ہو بھی نہ پایا ہے زباں سے

دل میں یہ اُجالے اُتر آئے ہیں کہاں سے

ادا جعفری 

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

گنے ہوئے تھے قدم انحراف کیا ہوتا

گناہ طرز نگہہ تھا، معاف کیا ہوتا

جھکی ہوئی میری آنکھیں، سلے ہوئے مرے لب

اب اس سے بڑھ کے ترا اعتراف کیا ہوتا

خود اپنی وحشتِ جاں سے وفا نہ کی ہم نے

زمانہ اور ہمارے خلاف کیا ہوتا

دئیے تو اب بھی دئیے ہیں وہ بزم ہو کر حرم

بجھے ہوئے دل و جاں سے طواف کیا ہوتا

ستارہ تھا بھی تو آنسو کا استعارہ تھا

کسی فلک کا یہاں شگاف کیا ہوتا

لپکتے شعلوں کو بارش بجھا گئی ، لیکن

دھواں جو لکھتا رہا ہے وہ صاف کیا ہوتا

وہی غُبارِ تمنا، وہی شمیمِ دعا

تو روز و شب میں مرے اختلاف کیا ہوتا

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

نقش بر آب - ادا جعفری

سال ہا سال محبت جو بُنا کرتی ہے

رشتۂ قلب و نظر پیلۂ ریشم کی طرح

ایک جھونکا بھی حوادث کا اسے کافی ہے

پہلوئے گُل میں دھڑکتی ہوئی شبنم کی طرح

یہ محبت کے بنائے ہوئے ایوان بلند

ایک ٹھوکر بھی زمانے کی نہیں سہہ سکتے

آبگینے یہ بہت نازک و نارستہ ہیں

موج کی گود میں تادیر نہیں رہ سکتے

گرم رفتار سبک سیر کے رہوارِ حیات

آرزوؤں کے گھروندے کو یہ ڈھا دے نہ کہیں

تلخ تر جام کے ہاتھوں میں نظامِ نو کے

خوابِ نوشیں کی حلاوت کو مٹادے نہ کہیں

عشق کے ہاتھ میں روشن ہے جو ننھا سا دیا

عقل کی تند ہوا اس کو بجھا ہی دے گی

تو نے دیکھی ہی نہیں پنجۂ عسرت کی گرفت

روح کو قیدِ تمنا سے چھڑا ہی دے گی

گل ہی جائے گی کسی روز جنوں کی زنجیر

وقت ہر خواب کی تعبیر بتا دیتا ہے

کروٹیں لیتا ہے احساس جو بیداری کا

لوریاں دے کے امنگوں کو سلا دیتا ہے

نقش بر آب ہے وابستگیٔ حسن و شباب

نکہتِ گل کی طرح عشق ہے پابندِ ہوا

اس سے بہتر تھا کہ مجھ سے تجھے نفرت ہوتی

پھول مرجھاتے ہیں کانٹا نہیں مرجھا سکتا

تیر نفرت کا رہا کرتا ہے دل میں پیوست

شمع یہ تیرگیٔ غم میں تابندہ رہے

دستِ نفرت کی بنائی ہوئی دیوار اداؔ

سنگ و آہن کی طرح پختہ و پائندہ رہے

عزم ہوجائیں گے افسردہ، ارادے مفلوج

گوش لذتِ کشِ گلبانگِ جلاجل کیوں ہو

منزلیں اور بھی کتنی ہیں محبت کے سوا

روحِ آزاد گرفتارِ سلاسل کیوں ہو!

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

اس کو نزدیک آنے نہ دو – ادا جعفری

نہیں میرے بچو!

جدائی تو عفریت ہے

سخت بے درد خونخوار آسیب ہے

اس کو نزدیک آنے نہ دو

تم مجھے دیکھ لو

کس یقیں اور کتنے تحمل سے میں

روز ہر روزنِ در کے آگے

حصارِ دُعا کھینچ دوں

تم مرے آنکھ میں اعتبارِ نگہ کی طرح

فاصلے دُوریاں کُچھ نہیں

تم مرے پاس ہو، میں تمہارے قریں

تم تو خود اپنی دھرتی کو چہرہ ہو

آواز ہو

تم جہاں ہو یہ گلیاں یہ آنگن وہیں

ان ہواؤں کی محبوب سنگت وہاں

ان گلابوں کی جاں بخش رنگت وہاں

اور گُل مہر کی مہرباں چھاؤں بھی

اور دیوار پر جاگتا بولتا لمس کا یہ نشاں

ہے یہاں جیسے دیپک کی لو

اور وہاں روشنی

میں تو جس آئینے میں بھی چاہوں

تمہیں دیکھ لوں

موتیا کی کلی جب بھی چٹکی ہے

اس میں تمہاری ہنسی گھل گئی

اور چمپا کی کوشبو میں لہجے کی دھیمی مہک تُل گئی

دیکھ لو کس طرح

کہر آلود موسم کی سختی سے بچتی رہی

یاد کی بھیگتی چاندنی میں

میں اب بھی بہاروں سے لیکر

ردائے صبا اُوڑھ لوں


 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

تم تو وفا شناس و محبت نواز ہو

ہاں میں دغا شِعار سہی، بے وفا سہی!

تم کو تو ناز ہے دلِ اُلفت نصیب پر

میں ماجرائے درد سے ناآشنا سہی

ناآشنائے درد کو شکوہ سے کیا غرض

تم کو شکایتِ غمِ فرقت روا سہی

تم کو تو رسمِ ظُلم و سِتم سے ہے اِجتناب

تم سر بسر عطا سہی اور میں خطا سہی

میں محفلِ نشاط میں نغمہ طرازِ شوق

تم زیرِ لب تبسّمِ حسرت نُما سہی

تم کو خیالِ غم سبب اضطرابِ دل

مجھ کو بیانِ درد مسرّت فز ا سہی

تم کو مرا تساہلِ خط وجہِ انتشار

مجھ کو تمہارا طرزِ تغافل ادا سہی

میں انتظارِ خط کی صعوبت سے بے خبر

تم انتظارِ خط میں سدا مُبتلا سہی

میں اشتیاقِ دید و مروّت سے بے نیاز

اور تم نگار خانۂ مہر و وفا سہی

ہے اِک وفا شناس کو پاسِ وفا اداؔ

ورنہ کہاں ہم اور کہاں بخششِ خطا

ادا جعفری

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

وہی ناصبوریٔ آرزو، وہی نقشِ پا، وہی جادہ ہے

کوئی سنگِ رہ کو خبر کرو، اُسی آستاں کا ارادہ ہے

وہی اشکِ خوں کے گلاب ہیں وہی خار خار ہے پیرہن

نہ کرم کی آس بجھی ابھی، نہ ستم کی دھوپ زیادہ ہے

ابھی روشنی کی لکیر سی سرِ راہگزار ہے جاں بلب

کسی دل کی آس مٹی نہیں، کہیں اک دریچہ کشادہ ہے

تنِ زخم زخم کو چھوڑ دے، مرے چارہ گر، مرے مہرباں

دل داغ داغ کا حوصلہ تری مرحمت سے زیادہ ہے

جو نظر بچا کے گزر گئے تو نہ آسکو گے پلٹ کے تم

بڑی محترم ہے یہ بے بسی کہ خلوصِ جاں کا لبادہ ہے

یہی زندگی ہے بری بھلی، یہ کشیدہ سر، یہ برہنہ پا

نہ غبارِ راہ سے مضمحل، نہ سکونِ جاں کا اعادہ ہے

مرا افتخارِ وفا تلک مجھے راس آ نہ سکا اداؔ

ترا نام جس پر لکھا رہا وہ کتاب آج بھی سادہ ہے

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

اے شہرِ عزیزاں - ادا جعفری

اے صبحِ وطن! تیرے اُجالوں کی تمنا

کل بهی میرے رستے ہوئے زخموں کی حنا تهی

کل بهی مری رہبر تهی ترے نام کی خوشبو

اور آج بهی دی ہے تری حرمت پہ گواہی

اے صحن ِچمن !تیری بہاروں کی لگن میں

کس دشتِ بلاخیز سے گزرے ترے رہرو

تشریحِ جنوں کرتے رہے پاؤں کے چهالے

اوراقِ گل و لالہ کی مدهم نہ پڑی لو

اے صبحِ تمنا تری راتوں کے مسافر

خوننابۂ مژگاں کے سہارے بهی چلے ہیں

کوندی ہیں کبهی درد کی کرنیں سرِمقتل

پروانوں کی صورت کبهی چپ چاپ جلے ہیں

پہنچے ترے پندار کی چاہت میں کہاں تک

رسوا بهی سرکوچہ و بازار ہوئے ہیں

دنیا نے سنے حلقۂ زنجیر کے نوحے

تنہائی زنداں کے خریدارہوئے ہیں

دیکھے مرے گھائل، مرے حیران غزالاں

صد چاک ہیں دل آج بھی ویران نہیں ہیں

آزردہ و درماندہ و پابندِ سلاسل

پابندِ سلاسل ہیں، پشیمان نہیں ہیں

اے شہرِ عزیزاں !ترے ناموس کی خاطر

ہم جاں سے بهی گزرے تو کوئی بات نہیں ہے

اُبهرے گااندهیروں سے ترا نیر ِتاباں

اس رات کے بعد اور کوئی رات نہیں ہے

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

سُنو

جان!

تم کو خبر تک نہیں

لوگ اکثر بُرا مانتے ہیں

کہ میری کہانی کسی موڑ پر بھی

اندھیری گلی سے گزرتی نہیں

کہ تم نے شعاعوں سے ہر رنگ لے کر

مرے ہر نشانِ قدم کو دھنک سونپ دی

نہ گم گشتہ خوابوں کی پرچھائیاں ہیں

نہ بے آس لمحوں کی سر گوشیاں ہیں

کہ نازک ہری بیل کو

اک توانا شجر ان گنت اپنے ہاتھوں میں

تھامے ہوئے ہے

کوئی نارسائی کا آسیب اس رہگزر میں نہیں

یہ کیسا سفر ہے کہ روداد جس کی

غُبارِ سفر میں نہیں

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

رموزِ مملکت - ادا جعفری

آپ مسند نشیں

آپ جو چاہیں ارشاد فرمائیے

مصلحت آپ کی

آپ جن سے مخاطب ہوئے

ان کی بات اور ہے

ان کی مجبوریاں اور ہیں

وہ سہولت کی خاطر کبھی

اور کبھی صرف جینے کی خاطر بھی

ہر وعدہ ٔدلکشا کی

حقیقت کو پہچاننے سے گریزاں رہیں

بات بے بات بھی

مرحبا کہہ اٹھیں

آپ فرمائیے

اپنے ارشاد پر آپ کو خود یقیں آسکا

یہ جو اہلِ رضا ہیں

یہ بے بس ہیں ان پر

کبھی آپ کا دل دُکھا

کوئی کانٹا چبھا؟ 

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

تبصرہ - ادا جعفری

بے نوا موسموں میں

پرندے زمیں پر اترتے نہیں

صحن میں آ بھی جائیں

تو نزدیک آتے نہیں

دلکشا وادیوں کوہساروں سے

نغموں کی سوغات لاتے نہیں

کوئی رنگت ہواؤں سے چھنتی ہوئی

درد کے ساحلوں پر بچھاتے نہیں

کوئی پیغام خوشبو سے بھیگا ہوا

ہجر کے معبدوں میں سجاتے نہیں

کوئی جادو جگاتے نہیں

معجزہ رونما کوئی ہوتا نہیں

(بے نوا موسموں میں)

جس طرح بے دعا موسموں میں

کبھی لوگ ہنستے تو ہیں

ان کے لہجے مگر گنگناتے نہیں

بات کرتے تو ہیں

کچھ بتاتے نہیں

اور بتائیں بھی کیا

بے ردا موسموں میں!

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

اجتماعی المیہ - ادا جعفری

مدھر، من موہنی

گہری، رسیلی نیند کے جھونکے

بڑی دل خوا ہ نعمت تھے

مگر بیدار ہونے پر

عجب احساس بھی جاگا

کہ اس جادو کی نگری میں

ہم اپنے آپ کو کھو کر چلے آئے!

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

اور کوئی دیا بجھے، دیدۂ نم ابھی نہیں

درد رفیق جاں رہے فرصتِ غم ابھی نہیں

یوں بھی تو ہو کہ آئینہ اس گھڑی گفتگو کرے

ہم پہ ہوائے روز و شب چشمِ کرم ابھی نہیں

قصہ وصال و ہجر کا اور کو کیوں سنائیں ہم

اُس کی نگاہ سے گلہ اور بھی کم ابھی نہیں

وہ جو چلا گیا تو اب لفظ مثالِ سنگ ہیں

اور کہیں جاگتا ہوا ان میں صنم ابھی نہیں

سنتے ہیں صحنِ باغ میں پھول تو آج بھی کھلے

بزم خیال بھی وہی، بزم میں ہم ابھی نہیں

قافلۂ بہار میں آبلہ پا کوئی نہیں

اے دلِ دشت آشنا، خواہشِ رم ابھی نہیں

آج کا دن بھی کاٹ لوں، آج بھی منتظر رہوں

اک دو نفس ابھی کہاں، اک دو قدم ابھی نہیں

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

پھول صحراؤں میں کھلتے ہوں گے

آکے بچھڑے ہوئے ملتے ہوں گے

کتنی ویران گزرگاہوں سے

سلسلے خواب کے ملتے ہوں گے

آس ٹوٹے گی نہ جی سنبھلے گا

چاکِ دل بھی کہیں سلتے ہوں گے

صبح زنداں میں بھی ہوتی ہو گی

پھول مقتل میں بھی کھلتے ہوں گے

ہم بھی خوشبو ہیں صبا سے کہیو

ہم نفس روز نہ ملتے ہوں گے

اجنبی شہر میں اپنوں سے اداؔ

اتفاقا بھی تو ملتے ہوں گے

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے

آئے تو سہی، برسر الزام ہی آئے

حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے

خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے

تاروں سے سجا لیں گے رہ شہر تمنا

مقدور نہیں صبح، چلو شام ہی آئے

کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے

جس رہ سے چلے، تیرے درو بام ہی آئے

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا

کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے

باقی نہ رہے ساکھ اداؔ دشت جنوں کی

دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے

ادا جعفری

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ہر ایک قطرۂ خوں سے دیے جلائے ہوئے

یہ کون لوگ ہیں، کن بستیوں سے آئے ہوئے

تمہیں خبر نہ ہوئی، ہم نے انتظار کیا

تمہاری رہ میں کتنے فلک بچھائے ہوئے

ستارے کیا کہ یہاں دشتِ ماہتاب بھی ہے

ہماری آنکھ ہے کتنے ہنر چھپائے ہوئے

یقین کیوں نہیں آتا کہ سچ ہے اب بھی وہی

زمانہ گزرا ہے جس پر یقین لائے ہوئے

تو کیا ابھی ہمیں آدابِ غم بھی سیکھنا ہیں

فگار دل کے ہر اعزاز کو بھلائے ہوئے

تو کیا ہوائیں سندیسا کوئی نہ لائیں گی

جو چہرہ چہرہ اجالے تھے کیا وہ سائے ہوئے

کھنڈر بھی دیکھو خزینے بہت ملیں گے تمہیں

یہ قریے اہلِ محبت کے تھے بسائے ہوئے

سفر طویل تھا لیکن سفر طویل سہی

میں آ رہی ہوں زمانوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے

ادا ؔحصار سے باہر قدم تو رکھنا تھا

کہ وقت پاس سے گزرا نظر بچائے ہوئے

اداؔ جعفری

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

تقریب تیرے یاد آنے کی!۔۔۔۔

غنچوں کا سنگھار ہورہا ہے

سامانِ بہار ہو رہا ہے

جھونکے یہ ہوا کے بھیگے بھیگے

کیا کیا نہ امنگ جی میں اٹھے

کلیاں جو ادا سے پھوٹتی ہیں

جینے کی امیدیں ٹوٹتی ہیں

پھولوں سے لدی ہوئی ہیں شاخیں

آنکھوں میں کھٹک رہی ہیں شاخیں

بھونرے سے سکھی یہ کوئی کہہ دے

گاگا کے کسی کو کیوں ستائے

لو چھائیں گھٹائیں اودی اودی

زلفیں وہ کسی کی بکھری بکھری

پُروا سے کوئی یہ جا کے پوچھے

خوشبو یہ چرائی ہے کہاں سے

آتے ہیں امنڈ کے کالے بادل

(پھیلا ہوا انکھڑیوں کا کاجل)

جنگل میں چمک رہی ہے بجلی

دل بن کے دھڑک رہی ہے بجلی

سبزہ یہ بگڑ کے بن رہا ہے

یا روٹھ کے کوئی من رہا ہے

پھولوں پہ یہ تتلیاں کہاں ہیں

یادیں کچھ ہیں کہ پر فشاں ہیں

ادا جعفری

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

آج کی رات کتنی تنہا ہے

آج کی رات کتنی تنہا ہے

ہم بھی تنہا ہیں، دل بھی تنہا ہے

قطرہ قطرہ بجھی ہے آنکھوں میں

درد کی آنچ روشنی کی طرح

منجمد تیرگی ہے چار طرف

آج کس در سے مانگنے جائیں

زخمِ احساس، زندگی کی طرح

غم ہی ہوتا تو غم گسار آتے

ہجر کی رات ہم گزار آتے

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

نعتِ رسول مقبول ﷺ

یہ عجیب راستے ہیں کوئی ہمسفر کہاں ہے

میں تو خود کو چھوڑ آئی یہ نبیﷺ کا آستاں ہے

یہ دیارِ مصطفی ہے یہاں وقت رک گیا ہے

اسی در پہ روشنی ہے اسی چھاؤں اماں ہے

یہاں عجز کے مراتب یہاں آرزو بھی منصب

بڑا خوش نصیب ہے جو پسِ گردِ کارواں ہے

یہ مقام ہے ادب کا نہ اٹھا سکی ہوں پلکیں

جو چھلک گیا ہے آنسو وہ متاعِ عرضِ جاں ہے

وہ حریمِ پاک ہے یہ جہاں رفعتیں جھکی ہیں

یہ وقارِ ہر دو عالم یہ جمالِ ہر زماں ہے

یہ تجلیوں کا عالم مجھے کیا خبر کہاں ہوں

جو ادا نہ ہو زباں سے وہی حرف ترجماں ہے

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

نعتِ رسول مقبول ﷺ

جب نگاہوں میں ہو نکہتوں کی سی خو تب اُنہیںﷺ سوچنا

درد محرابِ جاں، آنکھ ہو باوضو تب اُنہیںﷺ سوچنا

روشنی کے حوالوں سے لکھنا وہ اسمِ جمالِ بشر

بارشِ رنگ ہو، پھول ہوں چار سو تب اُنہیںﷺ سوچنا

جن کا مداح ہے خالقِ دو جہاں، مالکِ ہر مکاں

حرف سے ماورا ہو سکے گفتگو تب اُنہیںﷺ سوچنا

دھیان کی لہر جو اس قدم تک گئی، دل کی معراج ہے

زندگی کے اجالوں کی ہو آرزو تب اُنہیںﷺ سوچنا

اب ستارے مژہ پر نہ رک پائیں گے، ہے یہ شہرِ نبی ﷺ

کہکشاں جب ہو زیر قدم چار سو تب اُنہیںﷺ سوچنا

وہ وقارِ زماں، افتخارِ زمیں، تابِ کون و مکاں

ذرّے ذرّے میں دیکھو جو حسنِ نمو تب اُنہیںﷺ سوچنا

ایک ہی لمحۂ شوقِ بے تاب کو عمر بھر دیکھنا

التجاؤں میں ہو ایک ہی رنگ و بو تب اُنہیںﷺ سوچنا

ان کے در کے سوا اور پہچان کوئی ہماری نہیں

چاہو اپنی نگاہوں میں جب آبرو تب اُنہیںﷺ سوچنا

وہ محیطِ کرم ، وہ نویدِ عطا، مجھ سے دل نے کہا

ڈھونڈتی ہو اگر دشتِ میں آ بجو تب اُنہیںﷺ سوچنا

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ہونٹوں پہ جن کے نام تمنا سے آئے ہیں

رنگیں قبا یہ گُلشنِ زہرا سے آئے ہیں

ہر دور کی جبیں پہ اُجالا انھیں سے ہے

جس بزم میں بھی آئے مسیحا سے آئے ہیں

ہیں آرزوئے کون و مکاں، فخرِ انس و جاں

میدانِ کربلا میں جو تنہاا سے آئے ہیں

منزل بنے کہیں ، کہیں منزل نما بنے

اک نقشِ پا کے پھول ہیں صحرا سے آئے ہیں

یہ شان ہے اُنھیں کی کہ آلِ رسولﷺ ہیں

تشنہ دہن میں جو آئے ہیں دریا سے آئے ہیں

جب مرگِ آبرو کی عزادار تھی وفا

پیغامِ زندگی لبِ تشنہ سے آئے ہیں

زخموں کی ہر کرن سے سحر پھوٹتی رہی

یہ آفتاب وادئ بطحا سے آئے ہیں

ہر بوند سے لہو کی لکھا حرف لا الہ

عنوانِ لوحِ جاں درِ مولا سے آئے ہیں

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

آپ مسند نشیں

آپ جو چاہیں ارشاد فرمائیے

مصلحت آپ کی

آپ جن سے مخاطب ہوئے

ان کی بات اور ہے

ان کی مجبوریاں اور ہیں

وہ سہولت کی خاطر کبھی

اور کبھی صرف جینے کی خاطر بھی

ہر وعدہ ٔدلکشا کی

حقیقت کو پہچاننے سے گریزاں رہیں

بات بے بات بھی

مرحبا کہہ اٹھیں

آپ فرمائیے

اپنے ارشاد پر آپ کو خود یقیں آسکا

یہ جو اہلِ رضا ہیں

یہ بے بس ہیں ان پر

کبھی آپ کا دل دُکھا

کوئی کانٹا چبھا؟

رموزِ مملکت - ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ہوائیں اتنی تیز تھیں

کہ زندگی کے ہاتھ میں

بشارتوں کی جو کتاب تھی

ورق ورق بکھر گئی

تو کیا سبھی رُتیں گزر گئیں

مگر جو آنے والے قافلے

دعا کی رہ گزر میں ہیں

پانچواں موسم - ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

~*اجنبی دیس میں*~

ٹھہر ہمدم! مرے کانوں میں صدا آتی ہے

یہ صدائے شیریں

کسی بچھڑے ہوئے بسرے ہوئے ساتھی کی طرح

جیسے ماضی کے نہاں خانے سے

آپ ہی آپ، دبے پاؤں چلی آئی ہے

یہ حسیں کوک، یہ دلدوز نوائے غمگیں

مجھ سے مت پوچھ کہ میرے لیے کیا لائی ہے

اجنبی دیس میں یادوں کا سہارا تو نہیں؟

یہ مرے خوابِ گزشتہ کا اشارا تو نہیں!

شیام روپی! تجھے معلوم نہ ہوگا شاید

تو مجھے دور۔۔۔۔ بہت دور لیے جاتی ہے

ادا جعفری 

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

میرے کھیتوں میں ہری کونپلیں پھوٹی ہوں گی

کونپلیں، زندگیٔ نو کے نشاں

وہ جواں دھرتی کے سینے کے جواں سال ارماں

اور بھونروں کی وہ گونج

سچ بتا! کانوں کو کیا اب بھی بھلی لگتی ہے

ریشمیں خوابوں سے یوں چونکتی ہوں گی کلیاں

جیسے ہولے سے کوئی یاد چلی آتی ہے

جیسے بے بات ہی آنکھوں میں نمی آجائے

دل کے آنگن میں د بے پاؤں کوئی آجائے

ادا جعفری

 ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

شیام روپی! تجھے شاید مرے محبوب چمن نے بھیجا

گل نے بھیجا کہ سمن نے بھیجا۔۔۔؟

تجھ سے کیا میری بہاروں نے کہا

میرے غنچوں نے مرے شعلہ عذاروں نے کہا

شوخ کرنوں نے پتا میرا نہ پوچھا ہوگا۔۔؟

نرم جھونکوں نے سندیسہ کوئی بھیجا ہوگا

وہی راتیں مرے گیتوں نے نکھارا تھا جنھیں

وہی صبحیں مرے ارماں نے سنوارا تھا جنھیں

نغمہ و رنگ کی موجوں سے گریزاں تو نہیں

سچ بتا! مجھ سے جدا ہوکے پریشاں تو نہیں

شیام روپی! تجھے معلوم نہ ہوگا شاید

آج اس نے بھی مجھے خواب میں دیکھا شاید!

(ایک بہت پرانی نظم)

ادا جعفری

 

 

 

 


Post a Comment

0 Comments