Tanha Shayari

 Tanha Shayari in urdu and hindi



Tanha shayari


Jo mila koi na koi sabaq de gaya

Apni zindagi main har shakhs Ustad nikla


جو ملا کویء نہ کویء سبق دے گیا 

اپنی زندگی میں ہرشخص استاد نکلا


किसी को सबक नहीं सिखाया गया

उनके जीवन में हर कोई एक शिक्षक निकला



میں دکھاوا کروں کس لئے کس کے آگے یہاں


روز محشر میرا حساب خدا لے گا کوئی انسان نہیں 



جو ملا کوئی نہ کوئی سبق دے گیا 


اپنی زندگی میں ہر شخص استاد نکلا 



ہم بیٹھ کر تنہا کسی ویران گوشے میں 


ہوا کو دکھ سنائیں گے تجھے ہم بھول جائیں گے 



اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانے پڑتے ہیں 


رہبر تو فقط اس رستے میں دو گام سہارا دیتے ہیں 



عمر تنہا گزار ڈالی ہے 


کوئی آنے کا وعدہ کر گیا تھا 



اپنی تنہائی میں تنہا ہی اچھا ہوں 


مجھے ضرورت نہیں دو پل کے سہاروں کی 



آج تنہا ہوں تو آواز تک نہ دیں کسی 


کل تک محفل میں تھا تو لوگوں کا ہجوم تھا 



تنہا رہتا ہوں میں دن بھر بھری دنیا میں 


دن برے ہوں تو پھر احباب کہاں آتے ہیں 




میرا دن اداس ہے اور رات تنہا سی اے دوست


کیا قصورتھا میرا فقط تجھ سے محبت کے سوا

رات ہوتے ہی اک پنچھی روز مجھ سے کہتا ہے 


دیکھ میرا آشیانہ بھی تنہا تیرے دل کی طرح 



تصدق اس کرم کے میں کبھی تنہا نہیں رہتا 


کہ جس دن تم نہیں آتے تمہاری یاد آتی ہے 




میری سمجھ سے بالاتر ہے 


میرے اندر بیٹھا ہوا تنہا شخص 



تمہیں معلوم بھی ہے نہ تنہا جی نہیں سکتا 


میری عادت بدلنے تک توں میرے ساتھ رکجا



چلتے رہیں گے قافلے میرے بغیر بھی یہاں 


ایک ستارہ ٹوٹ جانے سے فلک تنہا نہیں ہوتا 



فرصت میں یاد کرنا ہو تو کبھی مت کرنا 


میں تنہا ضرور ہوں مگر فضول نہیں 



کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا 


تم نہ ہوتے نہ ہی ذکر تمہارا ہوتا 



اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں 


عمر گزری ہے اس قدر تنہا 



جس تنہا سے پیڑ کے نیچے ہم بارش میں بھیگے تھے 


تم بھی اس کو چھو کے گزرنا میں بھی اس سے لپٹوں گا 

تنہا گلی اور اس کی یاد 


میری برسوں کی محبت اجڑ گئی 



کانچ جیسے ہوتے ہیں ہم جیسے تنہا لوگوں کے 


کبھی ٹوٹ جاتے ہیں تو کبھی توڑ دیے جاتے ہیں 



تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا 


آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا 



تنہا ہونا یہ نہیں ہوتا کہ آپ کے پاس کوئی نہیں 


تنہا ہونا دراصل یہ ہوتا ہے کہ 


سب آپ کے پاس ہیں لیکن آپ کا کوئی نہیں 




کر دیا نہ پھر سے تنہا 


قسم تو ایسے دی تھی جیسے اب تم صرف میرے ہو 



احساس نہیں تھا کہ تنہا ہوں آج کل 


تو نے سوال شیر کے اچھا نہیں کیا 



خود اپنے سے ملنے کا یارا نہ تھا مجھ میں 


میں بھی میں گم ہو گیا تنہائی کے ڈر سے 




شب کی تنہائی میں اب تو اکثر 


گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے 



کہ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں 


میرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی 



عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی 


اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی 




اتنے گھنے بادل کے پیچھے 


کتنا تنہا ہوگا 




جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوں 


اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا 



ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر 


تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر 



تنہائیوں سے وابستہ ہے یہ زندگی میری وصی 


گواہ خدا ہے کہ پھر بھی تجھے یاد کرتے ہیں 



ایک چائے کو دو کپوں میں برابر بانٹ 


اکثر کیا ہے فرض کہ تنہا نہیں ہوں میں 




عمر رفاقت ٹھیک ہے لیکن مجھ کو ایسا لگتا ہے 


تم تو میرے ساتھ رہو گی میں تنہا رہ جاؤں 




سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی 


دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی 



تم پہ بیتے جو قیامت تنہائی کی 


تم بھی کہتے پھرو عذاب عذاب ہے عشق 



تنہائی کا اس نے منظر نہیں دیکھا 


افسوس کے میرے دل کے اندر نہیں 


دل ٹوٹنے کا درد ہو کیا جانے 


جس نے یہ لمحہ بھیجیں کر نہیں دیکھا 




یوں تو کوئی بھی تنہا نہیں ہوتا 


چاہ کر کسی سے جدا نہیں ہوتا 


محبت کو مجبوریاں لے ڈوبتی ہیں 


ورنہ خوشی سے کوئی بے وفا نہیں ہوتا 



ساری حدیں دس کی بار کر دیتی ہے 


تیری یاد اور تنہائی جب مل بیٹھے ہیں 



چلو اچھا ہوا عید اب کے بھی تنہا گزر گئی 


گلے مل کے بہت روتے جو تم آ جاؤ 



بکھرے وجود ٹوٹے خواب سلگتی تنہائی 


کتنے حسین تحفے دے جاتی ہےیہ محبت 



وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا 


اب اس کا حال بتائیں کیا 


ایک آگ غم تنہائی 


جو سارے بدن میں پھیل گئی 


جب جسم ہی سارا جلتا ہو 


پھر دامن دل کو بچائیں کیا 




خاموش رہو،تنہا بیٹھ،یاد کر اُص کو


تو نے عشق کیا ہے گناہ چھوٹا نہیں تیرا 



آنسو ہی تنہائی ویرانی اور غم مسلسل 


ایک ذرا سا عشق ہوا تھا کیا کیا میرا ستم لے گیا 



بدل جاتے ہیں لوگ تنہائیوں میں 


محبت کر کے بھی کسی سے جب وفا نہیں ملتی 



بکھری کتابیں، بھیگے اوراق اور یہ تنہائی


کہوں کیسے کے ملتا محبت میں کچھ بھی نہیں




رات کی تنہائی میں اکثر یہ سوچتا رہتا ہوں 


محبت دعا ہے سزا ہے جزا ہے یا گناہ ہے 



تجھ پہ کھل جاتی مری روح کی تنہائی 


میری آنکھوں میں کبھی جھانک کے دیکھا ہوتا 



وہی وحشت وہی ہے رب وہی تنہائی ہے 


تیری آنکھیں میرے خوابوں سے کتنی ملتی جلتی ہیں 



تنہائی تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے 


لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا 



چاند تنہا دکھائی دیتا ہے 


کیا ستاروں سے دوستی نہ رہے 




اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا 


بہت اداس لگا خدوخال سنوار کے 



آج پھر تیری یاد میں ہوں 


ہاں دیکھ میں کس حال میں ہوں 



مجھے اچھا سا لگتا ہے اپنی ذات میں رہنا 


مجھے بھاتا نہیں لوگوں سے شناسائی کرنا 



سو جاؤ محسن کوئی سوکھا ہوا پتا ہوگا 


تیرے آنگن میں کہاں ان کے قدم آتے ہیں 



یوں تو کہنے کو بہت لوگ ہیں شناسا میرے 


کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے 



اے کاش کہ تم سمجھ سکتے محبت کے اصولوں کو 


کسی کی سانسوں میں سما کر پھر تنہا نہیں چھوڑتے 

ایک شخص دیکھا ہے میں نے آئینے میں 


خفا دنیا سے ہے کلام خود سے بھی نہیں کرتا 











































Post a Comment

0 Comments