Parveen Shakir

 Parveen Shakir Poetry

Parveen Shakir


ابتدائے بچپن میں ہی شاعری شروع کرنے والی اردو کی ایک مشہور خاتون شاعرہ ، پروین شاکر کے علاوہ کوئی اور نہیں۔ ان کی مشہور کتاب "خوشبو" نے پوری دنیا میں بے حد پہچان اور مقبولیت حاصل کی۔ ان کے کام کا تجزیہ کرتے ہوئے ، پروین شاکر رومانٹک شاعری اور افسوس کی شاعری میں جذبوں پر مشتمل ہے۔ پروین شاکر اب تک کی سب سے مشہور خاتون اردو شاعرہ ہیں۔ اس کا فنتاسی اور رومانوی انداز ان کے کام کو بار بار پڑھنے کے قابل بنا دیتا ہے۔  پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو پیدا ہوئی تھیں۔ وہ حکومت پاکستان میں سرکاری ملازم کی حیثیت سے کام کرتی تھیں اور شاعری بھی لکھتی ہیں۔  اس کے بعد انہوں نے دوسری کتابیں لکھیں جن میں سیڈ بارگ ، خود کالامی ، انکار اور کیف ای آنا شامل ہیں۔ پروین شاکر کو پاکستان کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا گیا ، اردو شاعری میں عمدہ شراکت کے لئے پرائڈ آف پرفارمنس۔ پروین شاکر کی موت 26 دسمبر 1994 کو مہلک کار حادثے میں ہوئی تھی۔

پروین شاکر ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی میں ایک ایسی ادبی آواز کے طور پر مشہور ہیں جنہوں نے مرد راوی کے زیر زمین منظر نامے میں خواتین راویوں اور تجربات کی آواز لائیں۔ پروین شاکر نے ایک نوجوان عورت کے نقطہ نظر سے لکھنے پر ، اپنے کام میں اردو کے لفظ لارکی (لڑکی) کو استعمال کرنے والی پہلی شاعرہ کی حیثیت سے اپنے وقت کی مردانہ ڈھال کو توڑ دیا ، جس میں خواتین کی حالت کو جذباتی اور حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے اس روایت کی خلاف ورزی کی۔ ان کے اردو جوڑے کو 1970 کی دہائی میں مقبول سمجھا جاتا تھا ، اور ان کے تمام شعری مجموعوں کو فوری تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کی شاعری کو مفت آیت کے تجرباتی انداز سے بھی نوازا گیا جو انگریزی الفاظ ہرمشتمل  ہے جو عام طور پر اردو بولنے والوں کو نظم کے دائرے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ انداز ، اگرچہ ایک پُرجوش نوجوان سامعین کی گرفت میں بہت کامیاب رہا ، لیکن اسے اردو شاعری کی شکل کے نمائندے کے طور پر نہیں لیا گیا ، اور اردو ادب کے شائقین اسے زیادہ متنازعہ سمجھتے ہیں۔




Mar bhi jaoon to kaha log bhula hi dengy

Lafz mery maray huwoon ki gawahi dengy



مر بھی جاوں تو کہا لوگ بھلا ہی دینگے 

لفظ میرے مرے ہووں کی گواہی دینگے


अगर मैं मर भी जाऊं, तो भी मैंने कहा कि लोग अच्छा करेंगे

शब्द मेरे मृत होने की गवाही देगा

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤


الجھی ہوا کا رقص دیکھا
دیکھا تیرے لہجے کا بدلنا
تھا بہت یقین تیری وفا پر
پھر وفا پہ اُٹھتا یقین دیکھا
ملتا نہیں مجھے سکون کسی پل
اپنے درد کو ہر بار بکھرا دیکھا
پروین شاکر

عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اُٹھتی ہوں یہی سوچ کہ تنہائی میں
میرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی
جس طرح خواب میرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس اُمید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
کوئی آہٹ، کوئی آواز، کوئی چاپ نہیں
دِل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں آئے کوئی
پروین شاکر



بہت گہری تھکن ہے
تمھارے ان گنت میسج ہیں جنھیں ڈیلیٹ کرنا تھا
کہ سمجہا تو یہی تھا
میں فقط اک بار میں سب کچھ مٹا سکتا ہوں لیکن پھر
جونہی ان باکس کھولا تو یہ دیکھا '
" زندگی کے کچھ سنہری سال رکھے ہیں
تمھاری یاد اور ہنستی ہوئی آنکھیں
کہیں ناراض ہو کر روٹھ جانے پر
ادھورے لفظ لکھے ہیں
کہیں مجھ کو منا لینے کی خاطر پھول بھیجے ہیں
کہیں کچھ تیز لہجے میں بہت سے طنز بھی تو ہیں
مگر اکثر جگہ یہ بھی تو لکھا ہے،
"مجھے تم سے محبت ہے"
مجھے تم یاد آتے ہو
بہت مجھکو ستاتے ہو
تم بن دل کہیں بھی لگتا نہیں ہے"
کہیں پیاری سی کچھ تصویریں ہیں
بہت ہی خاص لمحوں کی کچھ ادھوری سی تحریریں ہیں
مگر پھر یوں لگا مجھ کو
کہ اب آگے جو لکھے ہیں وہ سارے لفظ خالی ہیں
کہ جیسے ایک بھی جملے کے پیچھے تم نہیں شاید
فقط یہ فون پر لکھے ہوئے کچھ حرف ہیں
بے جاں سے بہت ہی انجان سے
کسی اجنبی سے جیسے کوئی مخاطب ہو
بڑی ہی بے درد سی خاموشی
جابجا گفتگو کا حصہ ہے
سو میں نے سب مٹا ڈالا
فقط ایک جملہ رہ گیا ان باکس میں تنہا
کہ جب تم نے مجھے پہلی بار
میر ے نام سے پکارا تھا
فقط ایک جملہ!!!!
فقط ایک جملہ!!!!
پروین شاکر


کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مُجھے چھوڑ دیا اُس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی
پروین شاکر
اپنے سرد کمرے میں
میں اداس بیٹھی ہوں
نیم وا دریچوں سے
نم ہوائیں آتی ہیں
میرے جسم کو چھو کر
آگ سی لگاتی ہیں
تیرا نام لے لے کر
مجھ کو گدگداتی ہیں
کاش میرے پر ہوتے
تیرے پاس اڑ آتی
کاش میں ہوا ہوتی
تجھ کو چھو کے لوٹ آتی
میں نہیں مگر کچھ بھی
سنگ دل رواجوں کے
آہنی حصاروں میں
عمر قید کی ملزم
صرف ایک لڑکی ہوں!!!!!
(پروین شاکر)


جس سے ملتا ہے دل مقدر نہیں ملا کرتے
محبت میں بھی ایسے موسم ہوا کرتے ہیں
دل کی بے چینی کا سبب کس کو بتأیں
تیری دید سے دل کو چین ملا کرتے ہیں
بے ترتیب سی راتیں بے ترتیب سے دن
ہمیں سارے موسم یوں ملا کرتے ہیں
پروین شاکر


رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
وہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آ گئی
احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا
یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا
بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں
دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا
شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نہیں گیا
گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی
لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آ کر نہیں گیا
تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد
جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا
رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا
ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی
وہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیا
یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے
جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا
پروین شکاکر
















Post a Comment

0 Comments