Maa Shayari

 

Maa Shayari


Main ne kal shab chahton ki sab kitabain phaar dee

Sirf ik kaghaz pe likha lafz "MAA" Rehny dia


میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں

صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ  ماں  رہنے دیا


मैंने कल रात को अपनी सभी इच्छाओं को पूरा किया

केवल एक कागज़ पर लिखी गई माँ शब्द मात्र रह गई


داستان میرے لاڈ پیار کی 


ایک ہستی کے گرد گھومتی ہے 


پیار جنت سے اس لئے ہے مجھے 


کے یہ میرے ماں کے قدم چومتی ہے 




دنیا میں مجھے جو بھی جتنا بھی ملا ہے یہ 


سب کچھ میری ماں کی دعاؤں کا صلہ ہے 



ماں بھی کیا خوب بنائی ہے میرے رب نے 


دیدار جسکا سبھی دکھ پریشانیاں کردیتا ہے ختم خودبخود



اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے


جو میری ماں کے ہاتھ کا ہے


 


خوبصورتی کی انتہا دیکھی 


جب مسکراتے ہوئے میں نے اپنی ماں دیکھی 



پتا ہے دنیا میں سب سے سکون والی جگہ کونسی ہے 


وہ جگہ صرف ماں کی گود ہے 



میری عمر بھی مالک میری ماں کو عطا کرے 


وہ ہوگی دعا دے گی وہ ہوگی وفا دے 



روک لیتا ہے بلاؤں کو وہ اپنے اوپر 


ماں کا آنچل مجھے جبریل کا پر لگتا ہے 


ماں سر پر جو ہاتھ پھیرے تو ہمت آجائے


ماں ایک بار مسکرا دے تو جنت مل جائے



مشہورماں کی مامتا ہے کائنات میں


بے لوث کوئی پیار ہے تو ماں کا پیار ہے




مختصر ہوتے ہوئے بھی زندگی بڑھ جائے گی


ماں کی آنکھیں چوم لیجئے روشنی بڑھ جائے گی



 ہوا دکھوں کی جب آئی کبھی خزاں کی طرح 


مجھے چھپا لیا مٹی نے میری ماں کی طرح 



آئینہ دیکھ کر خوش ہیں میری آنکھیں بے حد 


میرے چہرے میں میری ماں کی مشابہت بھی ہے 



رحمت کی تصویر ہے میری ماں 


میں ایک خواب ہوں زندگی کا 


جس کی تعبیر ہے میری 


زندگی کے خطرناک راستوں میں 


مشعل راہ ہے میری 


میرے ہر غم ہر درد میں 


ایک نیا جوش و ولولہ ہے میری ماں 






ماں سب کی جگہ لے سکتی ہے 


لیکن ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا 




ماں کے جو قریب ہوتے ہیں 


دشمن بھی ان کے حبیب ہوتے 


ماں جن کے پاس ہوتی ہے 



وہ لوگ کہاں غریب ہوتے ہیں 


ماں جن کی زندہ ہوتی ہے


وہ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں



 میں پہلے ہنستا تھا ہر بات پر ہنستا تھا 


تو ماں کہتی تھی استغفار پڑھا کر 


نہ جانے آگے کیا دیکھنے کو ملے 


یہ ماؤں کو غیب کا علم کیسے ہوتا ہے 


ماں سچ کہتی تھی


اب واقعی ہنسنے سے ڈر لگتا ہے



 ماں سے جو محروم ہوجاتے 


وہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کیا کھویا 


اور زندگی کے معنی ان کے لئے کیسے تبدیل ہوتے ہیں



ما محبت شفقت عبادت ریاضت


وہ لفظ ہی نہیں اترا جس سے تجھے لکھوں

اسی کے نام سے تھی ابتدائے خوش خطی 


لفظ جتنے میں نے لکھے سب سے بہتر مال لکھا




 اس ظلم کی دنیا میں فقط پیار میری ماں 


ہے میرے لئے سایہ دیوار میری ماں


نفرت کے جزیروں سے محبت کی حدوں تک


بس پیار ہے ،ہاں پیار ہے،بس پیار میری ماں



شجر کی چھایہ بی ہے سر پہ آسماں ہے ماں


زمیں کی وسعتیں محدود بے کراں ہے ماں



زندگی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں 


جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں 



جس کے دل میں ماں کے لیے محبت ہے 


وہ زندگی کے کسی موڑ پر شکست نہیں کھا سکتا



ماں کو دیکھ کے مسکرایا کرو 


کیونکہ ہر کسی کے نصیب میں حج نہیں ہوتا



آسائیشوں کی گود میں حاصل نہیں ہوا


پایا تھا جو سکون کبھی ماں کی گود میں



اگر کسی روز عرش وال 


مجھے ملے اور مجھ سے پوچھے


بتاؤ کیا چاہتے ہو مجھ سے


جو مانگ لوگے عطا کروں گا


میں سر جھکا کر اسے کہوں گا


توں جیسے رکھے خوش رہونگا


بس ایک ہستی سنبھال رکھنا


توں میری ماں کا خیال رکھنا




گھر کو سونا کر جاتی ہیں 


میں جانے کیوں مر جاتی ہیں 



یا رب میری ماں کو لازوال رکھنا 


میں رہوں نہ رہوں میری ماں کا خیال رکھنا 


میری خوشیاں بھی لے لے میری سانسیں بھی لے لے 


مگر میری ماں کے گرد سدا 


خوشیوں کا جال رکھنا 



کر لیا کرو صبح صبح ماں کے چہرے کی زیارت دوستو 


پتا نہیں کل کو تمہیں حج کرنے کا موقع ملے نہ ملے 




میری مآں کی دعاؤں سے پریشان ہے میرا دشمن 


وہ جب بھی وار کرتا ہے تو خنجر ٹوٹ جاتا ہے 




وہ گھر جنت ہے 


جس گھر میں ماں ہے 



لوگوں سے کہہ دو میری تقدیر سے جلنا چھوڑ دیں 


ہم گھر سے دولت نہیں ماں کی دعا لے کر نکلتے ہیں 



بس اک خدا نہیں ہوتی


 ورنہ ماں کیا نہیں 





کما کے دولت میں ماں کو اتنی نہ دے پایا 


جتنے پیسوں سے وہ میرا صدقہ اتارا کرتی تھی 



ہر مشکل آسان ہوتی ہے 


جب تک زندہ ماں ہوتی ہے 



ماں کی خدمت کر لو دوستو 


ماں کی خدمت اویس قرنی بنا دیتی ہے 




کامیابیوں کی راہوں میں جس کا تذکرہ ضروری ہے 


وہ ماں ہے جس کے بغیر زندگی ادھوری ہے 




دنیا میں مجھے جو بھی جتنا بھی ملا ہے 


سب کچھ میری ماں کی دعاؤں کا صلہ ہے یہ 




ماں نہیں ہوتی جن کے پاس 


ان سے پوچھو دکھ کسے کہتے ہیں 



ماں سے بڑھ کر کوئی نام کیا ہوگا 


اس نام کا ہم سے احترام کیا ہوگا 


اس کے پیروں کے نیچے جنت ہے 


اس کے سر کا مقام کیا ہوگا 



سخت راتوں میں بھی آسان سفر لگتا ہے 


یہ میری ماں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے 



پوچھتا ہے جب کوئی کہ دنیا میں محبت کہاں ہے 


مسکرا دیتا ہوں میں اور یاد آ جاتی ہے ماں 



میں ستارہ تھا تیری آنکھوں کا


ماں دیکھو مجھے اب کہاں ہوں میں





خالق کے بعد جس نے مکمل کیا مجھے 


اہل جہاں سنو وہ میری ماں کی ذات ہے 



تنقید میں کبھی بگڑا ہوا تو کبھی نکارا کہاں گیا مجھے 


ماں بس اک تیرے پیار کا سہارا سنوار گیا مجھے 


ماں کے احسان ہے کتنے مجھ پر بیان کروں  کیسے


اس کو دیکھنے ہی سے ثواب حج نوازا گیا مجھے


ماں تیری خدمت کرنے میں بہت خامیاں تھیں مجھ میں


پھر بھی وہ تیری آخری مسکراہٹ میں سنبھال لیا مجھے


میں تو اب اس ڈر سے روتا بھی نہیں ہوں میں


کے اب کی بار کون دے گا تیرے جیسا دلاسا مجھے


ساجد علی



 


ساری زندگی ماں کے نام کرتا ہوں 


میں خود کو ماں کا غلام کرتا ہوں


جنہوں نے کی زندگی اولاد پہ نثار 


جوہیں مائیں ان کو سلام کرتا ہوں 


جہاں دیکھتا ہوں لفظ ماں لکھا ہوا 


چومتا ہوں اس کا احترام کرتا ہوں 


میری زبان کو مل جاتی ہے مٹھاس 


جب بھی ماں سے کلام کرتا ہوں 




وہ دل میں چلی آتی ہے چپکے چپکے 


کچھ بھول بھی جاؤں تو بتا جاتی ہے چپ کر 


بارہا ایسا بھی ہوا محفل میں 


ماں مجھے چوم جاتی ہے چپکے چپکے 


کاش تجھے مل کے بتاؤ پاؤں 


یاد تیری کتنا رلاتی ہے مجھے چپکے چپکے 


اپنے بچوں میں الجھ کر اڑ جاتی ہے نیند میری 


ماں پھر آکے لوری سنا جاتی ہے چپکے چپکے 




ستارے جیسی روشن ہے میری پیشانی اب 


جب سے میری ماں نے اسے چوما ہے 



درد چلا جاتا ہے میرے گھر کی دہلیز سے اداس ہو کر 


پریشان نہیں ہوتا میں کبھی اپنی ماں کے پاس ہو کر 



ماں کی ایک دعا زندگی دے گی 


خود روئے گی تمہیں ہنسا دے گی 


کبھی بھول کر بھی ماں کو نہلانا 


ایک چھوٹی سی غلطی پورا عرصہ لگا دے گی 










ذرا سی چوٹ لگے تو وہ آنسو بہا دیتی ہے 


اپنی سکون بھری گود میں ہم کو سُلا دیتی 


کرتے ہیں خفا ہم جب تو چٹکی میں بھلا دیتی ہے


 ہوتے ہیں خفا ہم جب تو دنیا کو بھلا دیتی ہے 


مت گستاخی کرنا لوگوں آسماں سے کیوں کہ 


جب وہ چھوڑ کے جاتی ہے تو کبھی لوٹ کے نہیں آتی 



میں ایک چھوٹی سی بچی تھی تیری انگلی تھام کے چلتی تھی 


تو دور نظر سے ہوتی تھی میں آنسو آنسو روتی تھی


 خوابوں کا ایک روشن بس تھا تو روز مجھے پہناتی تھی 


جب دھرتی تھی میرا تو کو تو اپنے ساتھ سلاتی تھی


ماں تو نے کتنے برسوں تک اس پھول کو سینچا ہاتھوں سے


جیون کے گہرے بھیدوں کو محسن جی تیری باتوں سے


میں تیری یاد کے تکیے پرآپ بھی رات کو سوتی ہوں


ماں میں چھوٹی سی اک بچی تیری یاد میں اب تک رہتی ہوں




 چند بچوں کو پالا تھا ایک ماہ جتن سے 


ممتا کا صلہ پھر بھی ضعیفی میں نہ پائی


ہر چیز تو تقسیم ہوئی باپ کے مرتے 


 ایک ماں تھی جو حصے میں کسی کے نہ آئی 







ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اٹھا رہا ہوں 


ہیں کون سی کمی جو مجھ کو ستارہی ہے 


ہیں کون سا غم جو جی کو جلا رہا ہے 


ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اٹھا رہا ہوں 


ٹوٹا ہے دل یہ میرا نم ہے میری نگاہیں 


ہے کون سا وہ دکھ جو دل کو دکھا رہا ہے 


میں نہ تو بتا رہا ہوں نہ ہی چھپا رہا ہوں 


ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اٹھا رہا ہو ں


ڈوبا ہوا ہوں کیوں میں ازل سے اندھیروں میں ماں 


ہیں کون سا یہ شکوہ جو لب سے بتا رہا ہوں 


ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اٹھا رہا ہوں 


رہتا ہوں غم کے گھر میں کس کی عنایتیں ہے 


ہے کس کی ذہ نوازی دو کہ جو یہ کھا رہا ہوں 


ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اٹھا رہا ہوں 


کس نے دیا ہے مجھ کو رسوائیوں کا خزانہ 


یہ کس کے ظلم و ستم کو میں نبھا رہا ہوں 


ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اٹھا رہا ہوں 


ماں تیرا غم لئے دل میں دیے جا رہا ہوں 


ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اٹھا رہا ہوں 


 






پیاری ماں مجھ کو تیری دعا چاہیے تیرے آنچل کی ٹھنڈی ہوا چاہیے


لوری گا گا کے مجھ کو سلاتی ہے توں مسکرا کر سویرے جگاتی ہے توں


 مجھ کو اس کے سوا اور کیا چاہیے تیری ممتا کے سائے میں پھولوں پھلو ں


تھام کر تیری انگلی میں بڑھتا چلوں آسرا بس تیرے پیار کا چاہیے 


تیری خدمت سے دنیا میں عظمت میری تیرے قدموں کے نیچے ہے جنت میری 


عمر بھر سر کا سایہ تیرا چاہیے مجھ کو ماں تیری دعا چاہیے 


 



غریب ماں اپنے بچوں کو پیار سے یوں مناتی ہے 


پھر بنا لیں گے نئے کپڑے یہ عید تو ہر سال آتی ہے 


 

ابھی بھی چاند راتوں میں یہاں پریاں اترتی ہیں 


اماوس میں ابھی بھی نور میرے ساتھ چلتا ہے 


ہوائیں اب بھی مجھ کو دیر تک لوری سناتی ہیں 


فضائی اب بھی میرے ساتھ مل کے گنگناتی ہیں 


کوئی مانوس سی خوشبو ہر اک سو پھیل جاتی ہے 


میرے کاندھوں کو دھیرے سے کوئی آکے ہلاتا ہے 


میرے پہلو میں آ کے اب بھی کوئی بیٹھ جاتا ہے 


اکیلے میں کبھی جب بھی تمہاری یاد آتی ہے ماں 


حنیف دیپ 






Post a Comment

0 Comments