Khamoshi Shayari

....Khamoshi ki kitni Zubanain Hain Na


Khamoshi Shayari
Khamoshi Shayari


Khamoshi ki kitni zubany hain Na
ZID,GHUSSA,DUKH,ANA,AUR SHUKAR

خاموشی کی کتنی زبانیں ہیں نا۔۔۔
دکھ،ضد،غصہ ،انا    اور شکر

मौन की कितनी जीभ हैं
क्रोध, क्रोध, दुख, पीड़ा और कृतज्ञता

ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا 

خاموشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح 


خاموشی رات کی دیکھتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں 

مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں 


شور کرتے رہو تم سرخیوں میں آنے کی 

ہماری تو خاموشیاں بھی اک اخبار ہیں 


اندر ایسا حبس تھا میں نے کھول دیا دروازہ 

جس نے دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے 


خدا خود ہی سن لیتا ہے 

خاموش دل کی صدا 


خاموشیاں کر دیں بیان تو الگ بات ہے 

کچھ درد ہے جو لفظوں میں اتارے نہیں


اچھا کرتے ہیں وہ لوگ جو محبت کا اظہار نہیں کیا 

خاموشی میں مر جاتے ہیں مگر کسی کو برباد تو نہیں 


کبھی خاموشی بھی بہت کچھ کہہ جاتی ہے 

تڑپنے کے لیے یاد رہ جاتی ہے 

کیا فرق پڑتا ہے گولڈ لیف ہو یا گولڈ فلیک 

جلنے کے بعد صرف راکھ رہ جاتی ہے 


نہ وہ آسکے نہ ہم کبھی جاسکے

نادرد دل کا حال کسی کو سنا سکے 

بس خاموش بیٹھے ہیں ان کی یادوں میں 

نہ اس نے یاد کیا نہ ہم بھلا سکے 


میرے دل میں اتر سکو تو شاید یہ جان لو 

کتنی خاموش محبت تم سے کرتا ہے کوئی 


میری چاہت ہے وہ میری انا بھی ہے 

میری خاموش لہجوں کی وہ ایک صدا بھی ہے 

رہتا ہے صبح شام وہ میرے وجود میں 

میری آواز میرا لہجہ میری ادا بھی ہے 


ناآہ سنائی دی نہ تڑپ دکھائی دی

فنا ہو گئے تیرے عشق میں بڑی خاموشی کے ساتھ 



یہ نہ سمجھو کہ میں تم سے محبت نہیں 

ہمیں تو عادت ہے بس خاموش رہنے 


محبت مل نہیں سکتی مجھے معلوم ہے صاحب 

مگر خاموش رہتا ہوں محبت کر بیٹھا ہوں 


تھی خاموشی دیکھ کر لگتا ہے کوئی اپنا ہی تھا

اتنی بے دردی سے برباد کوئی غیر نہیں کرتا


تم یاد نہیں کرتے تو ہم گلہ کیوں کریں

خاموشی بھی تو ایک ادا ہے محبت نبھانے کی


محبت جب سکھوں نے زندگی برباد کرتی ہے

تو لب خاموش رہتے ہیں نظر فریاد کرتی ہے


راز کھول دیتے ہیں نازک سے اشارے اکثر

کتنی خاموش محبت کی زبان ہوتی ہے


 تم مجھے جتنی اذیت دے سکتے تھے تم نے دے دی 

اب تم دیکھو گے میرا صبر اور میری خاموشی 


آنکھوں میں آنسو تھے مگر ہم خاموش رہے 

اس توقع سے کہ شاید تو پلٹ کر دیکھ لے


مانا کہ تم لفظوں کے بادشاہ ہو 

ہم بھی خاموشیوں پر راج کرتے ہیں 


یہ ہمارا ضد ہے کہ ہم اس کو 

بیٹھتے ہیں خاموش رہتے ہیں 


میں نے ایک شخص سے خاموش محبت کی ہے 

یعنی ہم دونوں کا نقصان نہیں ہو سکتا 


کتابیں بھی بالکل میری ذات جیسی ہے 

الفاظوں سے بھرپور مگر خاموش 


خاموش مزاجی تمہیں جینے نہیں دے گی 

اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچا دو 


یہ الگ بات ہے کہ خاموش کھڑے رہتے ہیں 

پھر بھی جو بڑے ہیں وہ بڑے ہی رہتے ہیں 


کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت 

جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے 

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں 

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے 



کتنی لمبی خاموشی سے گزرا ہوں 

ان سے کتنا کچھ کہنے کی کوشش 


ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی 

اور وہ سمجھےنہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے 



خاموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے 

تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے 


اسے بے چین کر جاؤں گا میں 

خاموشی سے گزر جاؤں گا میں 


چپ چاپ سنتی رہتی ہے پہروں شب فراق 

تصویر یار کو ہے میری گفتگو پسند 


رگوں میں زہر خاموشی اترنے سے ذرا پہلے 

بہت تڑپی کوئی آواز مرنے سے ذرا پہلے 


زور قسمت پہ چل نہیں سکتا 

خاموشی اختیار کرتا ہوں 


اثر بھی لے رہا ہوں تیری چپ کا 

تجھے قائل بھی کرتا جا رہا ہوں 


نکلیں گے اس کے معانی ہزار 

عجب چیز تھی ایک میری خاموش 


ہم ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس چلے آئے 

وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو 


ہر طرف سے خاموشی اور ایسی خاموشی 

رات اپنے سائے سے ہم بھی ڈر کے روئے 


خاموش رہنے کی عادت بھی مار دیتی ہے 

تمہیں یہ زہر تو اندر سے چاٹ جائے گا 


خاموشی تیری میری جان لیے جاتی ہے 

اپنی تصویر سے باہر تجھے آنا ہوگا 


ہم نے اول تو اس کو پکارا ہی نہیں 

اور پکارا تو پکارا بھی صداؤں کے بغیر 



سب ہوں گے اس سے اپنے تعارف کی فکر میں 

مجھ کو میری خاموشی سے پہچان جائے گا 


رنگ درکار تھے ہم کو تیری خاموشی کے 

ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں 


ایک دن میری خاموشی نے مجھے 

لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا 


چٹخ کے ٹوٹ گئی ہے تو بن گئی آواز 

جو میرے سینے میں اک روز خاموشی ہوئی تھی 


اک تیری خاموشی مار دیتی ہے مجھے 

باقی سب انداز اچھے ہیں تیری تصویر کے 


وہ میری خاموشی نہیں سنتا 

مجھ سے آواز نہیں دی جاتی 


مجھے انکار کردے مگر کچھ گفتگو تو کر 

تیرا خاموش سا رہنا مجھے تکلیف دیتا ہے 


خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں 

گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں 


خاموشی اتنی گہری ہونی چاہیے کہ

بے قدری کرنے والے کی چیخے نکل جائیں 


ہو از حد تک جاتی ہیں

 خاموشی تازہ دم رہتی ہے 


ناراض انسان کو منایا جا سکتا ہے 

خاموش انسان کو 



یہ سکوت ناز یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا 

خاموشی میں کچھ شکست ساز کی باتیں کرو 



ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے 

ایک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے 

خاموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا 

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں 



بھر جلتا رہا دل اور خاموشی کے ساتھ 

شمع کو ایک رات کی سوزیدلی پے ناز تھا 


خاموش تم بھی تھے اور خاموش میں بھی تھا 

پھروہ کون تھا جو اتنی دیر بولتا رہا 


خاموشی خود اپنی صدا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے 

سناتا ہی گونج رہا ہوں ایسا بھی ہو سکتا ہے 



او آسمان والے کبھی تو نگاہ کر 

کب تک یہ ظلم سہتے رہیں خامشی سے ہم 


میں نے یہ کب کہا کہ میرے حق میں ہو جواب 

لیکن خاموش کیوں ہے تو کوئی فیصلہ تو دے 


لب خاموش سے اظہار تمنا چاہے

بات کرنے کو بھی تصویر کا لہجہ چاہے 


 

Post a Comment

0 Comments