intizaar shayari Jaanta hai ke wo na ayengy Dil phir bhi masrof e intizar hai جانتاہے کہ وہ نہ آئیں گے دل پھر بھی مصروف انتظار ہے वह जानता है कि वे नहीं आएंगे दिल अभी भी इंतजार कर रहा है |
کون کہتا ہے وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے
ہے تم کبھی کسی کا انتظار تو کر کے دیکھو
بار ہا تیرا انتظار کیا
خوابوں میں دلہن کی طرح
طرح طرح سے بلایا مگر یہ حال ہوا
ہر ایک خیال سے پیدا ہو تیرا خیال ہوا
تم مت کھولنا میری ماضی کی کتابوں کو
جو تھا وہ رہا نہیں جو ہوں کسی کو پتا نہیں
اک رات گیا تھا وہ جہاں بات روک کے
اب تک رکا ہوا ہوں وہیں رات روک کے
کر رہے ہیں انتظار تیری محبت کا
اسی انتظار میں زندگی تمام نہ ہو جائے
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے
انتظار تو ہم تیرا ساری عمر کر لیں گے
بس خدا کرے تو بے وفا نکلے
ہم انتظار کریں گے تیرا قیامت تک
خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے
انتظار یار بھی لطف کمال ہے
نظریں کتاب پر اور سوچیں جناب پر
میں جانتا ہوں وفا تیرے بس کی بات نہیں مگر
یہ دل ہے کہ تیرے انتظار میں خوش ہے
ہے محبت کیا ہے اس شخص سے پوچھو جس نے
دل ٹوٹنے کے بعد بھی انتظار کیا ہو
شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا یا
کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے
ضرورت انتظار نہیں کراتی
محبت کو ہر وقت انتظار کرنا پڑتا ہے
ہم پر واجب ہے انتظار تیرا
خود کو رکھیں گے عمر بھر تنہا
جانتا وہ کیسے انتظار کا دکھ
میں ہر پل اس کو میسر جو رہا
سب آتے ہیں خیریت پوچھنے
تم آ جاؤ تو یہ نوبت ہی نہ آئے
انتظار بھی کسی کا کتنا ظالم ہوتا ہے تنہا
جگائے تو ساری رات رلائے تو ساری عمر
منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں
کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا
پھر مقدر کی لکیروں میں لکھ دیا انتظار
پھر وہی رات کا عالم ہے اور میں تنہا
میں نے اس سے پوچھا کہ قیمت کیا ہے محبت کی
اس نے بھی ہنس کر کہا آنسو بھری آنکھیں اور عمر بھر کا انتظار
پل پل انتظار کیا اس پل کے لیے
وہ پلایا بھی تو اک پل کے لئے
اب ہر پل دعا ہے اس پل کے لیے
کاش پھر آجائے وہ ایک پل کے لیے
وفا میں اب یہ ہنر اختیار کرنا ہے
وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ہے
یہ تجھ کو جاگتے رھنے کا شوق کب سے ہوا
مجھے تو خیر ترا انتظار کرنا ہے
آج بھی اس کا انتظار کرتے کرتے دن گزر گیا
انا پرست لوگ ہیں مرضی سے یاد کرتے ہیں
شب انتظار آخر کبھی ہوگی مختصر بھی
یہ چراغ بجھ رہے ہیں میرے ساتھ جلتے جلتے
یہ نظر منتظر ہے تیری آج بھی دل کسی اور سے آشنا ہی نہیں
میں کیوں راستہ دوں کسی اور کو جب کوئی تیرے جیسا بنا ہی نہیں
شب فراق کی پوچھو نہ وحشت مجھ سے
کوئی چراغ میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
ہاں انتظار ہمیشہ رہے گا تمہارا
بس اب آواز نہیں دیں گے
ان کے آنے کے بعد بھی جالب
دیر تک ان کا انتظار رہا
اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے
وہ آپ ہی جائیں تو آئے نا اعتبار مجھے
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے دے
کہیں وہ آ کے مٹا دینا انتظار کا لطف ہے
کہیں قبول نہ ہو جائے التجا میری re
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے میں انتظار میں ہوں
وہ مجھے چھوڑ کے ایک شام گئے تھے ناصر؎؎
زندگی اپنی اسی شام سے آگے نہ بڑھی
ایسے ہی انتظار میں لذت اگر نہ ہو
تو دو گھڑی فراق میں اپنی بسر نہ ہو
آہٹ سن رہا ہوں یادوں کی
آج بھی اپنے انتظار میں ہوں گے
ایک رات وہ گیا تھا جہاں بات روک کے
اب تک رکا ہوا ہوں وہیں رات روک کے
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
آنے میں سدا دیر لگاتے ہی رہے تم
جاتے رہے ہم جان سے آتے ہی رہے تم
0 Comments
Dear Visitors please don't send bad comment and don't share spam links.thank you for your support.