Ibn-e-insha Poetry in urdu and hindi
شیر محمد خان، جو اپنے قلمی نام ابن الانشا سے مشہور ہیں ، ایک پاکستانی اردو شاعر ، مزاح نگار ، سفر نامہ نگار اور اخباری کالم نگار تھے۔ وہ شاعری کے ساتھ ساتھ ، اردو کے بہترین مزاح نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے اشعار میں مخصوص خاکہ موجود ہے جس میں عامر خسرو کے الفاظ اور تعمیر کے استعمال کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جو عام طور پر زبانوں کے ہندی اردو احاطے کی زیادہ دھرتی بولیوں میں سنا جاتا ہے ، اور ان کی شکلیں اور شاعرانہ انداز ان نسلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نوجوان شاعرابن انشا پاکستان ، بھارت ، پنجاب کے ضلع جالندھر کی تحصیل فلور میں پیدا ہوئےتھے۔ ان کے والد کا تعلق راجستھان سے تھا۔ 1946 میں ، انہوں نے بی اے پاس کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد 1953 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ وہ مختلف سرکاری خدمات سے وابستہ رہے جن میں ریڈیو پاکستان ، وزارت ثقافت اور نیشنل بوک سنٹر آف پاکستان شامل تھے۔ انہوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ کی خدمت بھی کی اور اس کی وجہ سے وہ بہت سارے مقامات کی سیر کر چکے ہیں، ان مقامات میں جاپان ، فلپائن ، چین ، ہانگ کانگ ، تھائی لینڈ ، انڈونیشیا ، ملائیشیا ، ہندوستان ، افغانستان ، ایران ، ترکی ، فرانس ، برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ شامل ہیں۔ ان کے اساتذہ میں حبیب اللہ غضنفر امروہوی ، ڈاکٹر غلام مصطفی خان اور ڈاکٹر عبدالقیوم شامل تھے۔ 1940 کی دہائی کے آخر میں ، جوانی کے زمانے میں ، ابنِ انشا نے لاہور میں ایک معروف فلمی شاعر ساحر لدھیانوی کے ساتھ بھی ایک مختصر عرصے کے لئے رہائشرہے تھے۔ وہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک میں بھی سرگرم تھے۔ 11 جنوری 1978 کو ہڈکن کی لیمفوما سے وفات سے قبل ابنِ انشا نے اپنی باقی زندگی کراچی میں گزاری ۔ بعد میں انھیں پاکستان کے شہر کراچی میں سپرد خاک کردیا گیا۔
انکی شاندار شاعری کا ایک مکمل مجموعہ آپکی خدمت میں پیش ہے
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا
ابن انشاء
اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو
ہر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے
ابن انشاء
کب لوٹا ہے بہتا پانی بچھڑا ساجن روٹھا دوست
ہم نے اس کو اپنا جانا جب تک ہاتھ میں دامن تھا
ابن انشاء
رات آکر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
ابن انشاء
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا
ابن انشاء
حسن سب کو خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی
ابن انشاء
وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو
ابن انشاء
اپنی زبان سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بچاروں کا
ابن انشاء
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو
ابن انشاء
ہم کسی در پہ نہ ٹھہرے نہ کہیں دستک دی
سینکڑوں در تھے میری جان تیرے در سے پہلے
ابن انشاء
اپنے ہمراہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے
دشت پڑتا ہے میاں عشق میں گھر سے پہلے
ابن انشاء
میر سے بیعت کی ہے تو انشاء میر کی بیعت بھی ہے ضرور
شام کو رو رو صبح کرواب صبح کو رو رو شام کرو
ابن انشاء
گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں من میں کیا کیا موسم ہیں
اس باغیہ کے بھید نہ کھولو سیر کرو خاموش رہو
ابن انشاء
ایک سے ایک جنون کا مارا اس بستی میں رہتا ہے
ایک ہم ہی ہوشیار تھے یارو ایک ہم ہی بد نام ہوئے
ابن انشاء
کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے ،پربت تیرے ،بستی تیری ،صحرا تیرا
ابن انشاء
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
ابن انشاء
اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانہ تیرا
ابن انشاء
کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو
ابن انشاء
آ کے اس بیمار کو دیکھے تجھ کو بھی توفیق ہوئی
لب پر اس کے نام تھا تیرا جب بھی درد شدید ہوا
ابن انشاء
یوں ہی تو نہیں دشت میں پہنچے یونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے جنگل جنگل پھول میاں
ابن انشاء
ایک دن دیکھنے کو آجاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی
ابن انشاء
دیدہ و دل نے درد کی اپنے، بات بھی کی تو کس سے کی
وہ تو درد کا بانی ٹھہرا وہ کیا درد بتائے گا
ابن انشاء
حق اچھا پر اس کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا
تم بھی کوئی منصور ہو جو سولی پہ چڑھو خاموش رہو
ابن انشاء
اہل وفا سے ترک تعلق کر لو پر اک بات کہیں
کل تم ان کو یاد کرو گے کل تم انہیں پکارو گے
ابن انشاء
جلوہ نمائی ،بے پرواہی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے
کب کوئی لڑکئ من کا دریچہ کھول کے باہر جھانکی ہے
ابن انشاء
وحشت دل کے خریدار بھی ناپید ہوئے
کون اب عشق کے بازار میں کھولے گا دکان
ابن انشاء
ہم گھوم چکے بستی بن میں
اک آس کی پھانس لیے من میں
ابن انشاء
سن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کھوہ نکالی نہر
ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے کیوں ہو طول میاں
ابن انشاء
0 Comments
Dear Visitors please don't send bad comment and don't share spam links.thank you for your support.