Habib Jalib

 Habib Jalib Poetry in urdu

Habib Jalib
Habib Jalib



حبیب جالب ایک پاکستانی انقلابی شاعر ، بائیں بازو کے کارکن اور سیاستدان تھے جنہوں نے مارشل لاء ، آمریت اور ریاستی جبر کی مخالفت کی تھی۔ پاکستانی شاعر فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ وہ عوام الناس کے شاعر تھے۔انہوں نے فوجی بغاوت اور منتظمین کی مخالفت کی اور انہیں متعدد بار قانونی طور پر جیل بھیج دیا گیاتھا۔ 

حبیب جالب برطانوی ہندوستان کے ہوشیار پور کے قریب ایک گائوں میں 24 مارچ 1928 کو حبیب احمد کی حیثیت سے پیدا ہوئے تھے۔ وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کرکے آ گئے۔  بعد میں انہوں نے کراچی کے ڈیلی امروز کے ادارہ میں پروف ریڈر کی حیثیت سے کام کیاتھا۔ وہ ایک ترقی پسند مصنف تھے اور جلد ہی اپنی جوش و خروش شاعری کی بدولت سامعین کو اپنی گرفت میں لینا شروع کردیا۔ انہوں نے سادہ زبان میں لکھا ، ایک آسان سا انداز اپنایا اور عام لوگوں اور مسائل کو حل کیا۔ لیکن ان کے الفاظ کے پیچھے یقین ، ان کی آواز کی موسیقی اور انکی جذباتی توانائی کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی تناظر کی حساسیت نے سامعین کو بہت متاثر کیا۔

حبیب جالب 12 مارچ 1993 کو انتقال کرگئے اور شاہ فرید قبرستان سبزہ زار لاہور میں سپرد خاک ہوگئے۔

انکی مشہور تصانیف میں سر مقتل،ذکر بہتے خون کا،گنبد بیدار،کلیات حبیب جالب،اس شہر خرابی میں،گوشے میں قفس کے،حرف حق،حرف سر داراور عہد ستم شامل ہیں۔
انکی جاندار شاعری کا شاندار مجموعہ آپکی خدمت میں پیش ہے۔ 

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے

 دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے 

حبیب جالب


لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تیری

 ہم تیری دوستی سے ڈرتے ہیں 

حبیب جالب 



 تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا 

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا

حبیب جالب


دنیا تو چاہتی ہے یوں ہی فاصلے رہیں 

میاں کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل

حبیب جالب


 پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو

 جستجو آج بھی اسی کی ہے 

حبیب جالب 


ان کے آنے کے بعد بھی جالب 

دیر تک ان کا انتظار رہا

 حبیب جالب 


کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں

کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

حبیب جالب


 تو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں 

سانچے میں ہر ایک غم کے چپ چاپ ڈیلی برسوں

حبیب جالب 


ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں 

دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

 حبیب جالب 


کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں 

بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں 

حبیب جالب 


جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لئے بد نام ہوئے 

آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں 

 حبیب جالب 

لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت نہ لکھنا 

ہم نے سیکھا نہیں پیارے بااجازت لکھنا 

حبیب جالب 



تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالب 

الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے 

حبیب جالب 


جن کی یادوں سے روشن ہیں میری آنکھیں 

ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسا رکھا

حبیب جالب




چھوڑو اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے 

ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا

 حبیب جالب 


ایک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری 

دو روز میں ہم پر جو یہاں بیت گئی ہے 

حبیب جالب 


اک تیری یاد سے اک تیرے تصور سے ہمیں 

آگئے یاد کئی نام حسینوں کے

 حبیب جالب 


یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم 

لیکن یہ کیا کہ شہر تیرا چھوڑ جائیں ہم

حبیب جالب


دل کی بات لبوں پر لاکر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

حبیب جالب


کبھی جمہورت یہاں آئے 

یہی جالب ہماری حسرت ہے

حبیب جالب



نا تیری یاد نہ دنیا کا غم نا اپنا خیال

عجیب صورت حالت ہو گئی پیارے

حبیب جالب


امن تھا پیار تھا محبت تھی

رنگ تھا نور تھا نوا تھا فراق

حبیب جالب


اس ستم گر کی حقیقت ہم پر ظاہر ہو گئی

ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہوگیا

حبیب جالب


آنے والی برکھا دیکھیں کیا دکھلائے آنکھوں کو 

یہ برکھا برستے دن تو پریتم بے کار گئے

حبیب جالب







Post a Comment

0 Comments