کیسے کہ دوں کہ چھوڑدیا ہے اس نے مجھے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اتنے گھنے بادلوں کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گا
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو
ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا
میرا کارنامہ زندگی میری حسرتوں کے سوا کچھ نہیں
یہ کیا نہیں وہ ہوا نہیں یہ ملا نہیں وہ رہا نہیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
اے غم زندگی نہ ہو نا ناراض
مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی
دیکھ کر دلکشی زمانے کی آرزو ہے فریب کھانے کی
اے غم زندگی نہ ہو ناراض مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی
ظلمتوں سے نہ ڈر کے رستے میں
روشنی ہے شراب خانے کی
ہاتھ رے گیسوؤں کو پیار کرو
رات ہے مشعلیں جلانے کی
کس نے ساغر عدم بلند کیا
تھم گئی گردشیں زمانے کی
میرے حصے کے وہ غم دے گیا ہے
میری اس سے شراکت تو نہیں تھی
رخصت یار ہونے کے بعد
کتنے غم خبر لینے آ پہنچے
سید عظیم حیدر
دیکھ کر تجھے دکھ میں یوں احساس ہوتا ہے
ہے جیسے آئینے میں کھڑا عکس اداس
مانا کہ ہر کوئی اداس ہے یہاں
پر کسی کسی کا غم خاص ہے یہاں
سید عظیم حیدر
اندھیروں کا مسافر تھا روشنی سے گزرتا کیوں
غم اس کی منزل تھی خوشیوں میں اترتا کیوں
سید عظیم حیدر
لوگوں سے ملتا تھا غم میں سہ نہ سکا
اکیلا رہنا چاہتا تھا مگر رہ بھی نہ سکا
سید عظیم حیدر
ہاں میں سگریٹ پیتا ہوں بہت شوق سے پیتا ہوں
بہت حسرت سے پیتا ہوں بہت کثرت سے پیتا ہوں
ضبط کرتا ہوں آنسوؤں کو تو غم روتا ہے
چپ رہتا ہوں تو آنکھوں میں درد ہوتا ہے
نہ کھانے میں آؤں گا مگر پیوں گا نہیں دوستو
یہ شراب میرا غم مٹانے کی اوقات نہیں رکھتی
سکون دے نہ سکیں راحتیں زمانے
جو نیند آئے تیرے غم کی چھاؤں میں آئے
عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر شب غم کی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں
نیند تو درد کے بستر پہ بھی آ جاتی ہے
ان کی آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں
دنیا بھی ملی ہے غم دنیا بھی ملا ہے
وہ کیوں نہیں ملتا جسے مانگا تھا خدا سے
خواب و خیال کی سلطنت میں ہم
بچھڑے ہوؤں کے ساتھ بڑی دیر تک رہے
رنگوں سے ڈر نہیں لگتا صاحب
رنگ بدلنے والوں سے لگتا
رہتے ہیں اگر ان کے تصور میں شب و روز صاحب
اک دن ہماری جان محبت میں چلی جائے گی
تم نے دیکھا ہے کبھی آنکھ میں بہتا ہوا خواب
تم نے سنجے ہیں کبھی ہونٹ پہ سہمے ہوئے لفظ
یقین آتا نہیں دل کو کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے
میرا حال ہے غم سن کر وہ ظالم رو بھی سکتا ہے
کبھی انسان اکیلا ہوکے بھی تنہا نہیں ہوتا
سرے محفل کبھی بیٹھے بٹھائے کھو بھی سکتا ہے
تعجب کیوں ہے تم کو میری بے گناہی پر
کرم کا ایک قطرہ داغ دامن دھو بھی سکتا ہے
کبھی انسان کو نیند آتی نہیں پھولوں کے بستر
کبھی پتھر پہ سر رکھ کر مزے سے سو بھی سکتا
وہ کہتا ہے تمہاری خاطر ستارے توڑ لاؤں گا
بظاہر یوں نہیں ہوتا مگر یوں ہوبھی سکتا ہے
دل کی باتیں آپ سے کہنے کو دل کرتا ہے
دردِ جدائی کا غم سہنے کو دل کرتا ہے
ہماری قسمت میں فاصلے بہت ہے ورنہ
تو آپ کے دل میں رہنے کو دل بہت کرتا ہے
محبت چاہت وفا کچھ بھی نہیں
زندگی غم کے سوا کچھ بھی نہیں
تمہارے پاس میرے سوا سب کچھ ہے
میرے پاس تمہارے سوا کچھ بھی نہیں
نہ تنگ کرو ہم ستائے ہوئے ہیں
محبت کا غم دل پہ اٹھائے ہوئے ہیں
کھلونا سمجھ کر ہنسے نہ کھیلو
ہم بھی اسی خدا کے بنائے ہوئے ہیں
ہزاروں غم ہیں لیکن آنکھ سے ٹپکا نہیں
ہم اہل ظرف ہے پیتے ہیں چھلکایا نہیں کرتے
تمہارا دھوکا دینا اور ہمارا دھوکا کھا لینا
سنو یہ بھی محبت تھی ہماری
ہم خود بیچا کرتے تھے کبھی دردِ دل کی دوا
آج وقت نے ہمیں لاکر کھڑا کیا ہماری ہی دکان
جو دل کو توڑ دیتے ہیں
ہم ان کو چھوڑ دیتے ہیں
حلیمہ الیاس
پھر ہوا ایسے کہ مجھ کو در بدر کرنے کے بعد
نام اسی بستی کا میرے نام پر رکھا گیا
اوقات سے زیادہ محبت کر لی
اس لئے برداشت سے زیادہ درد ملا
استاد عشق سچ کہا تو نے بہت نالائق ہوں میں
مدت سے ایک شخص کو اپنا بنانا نہیں آیا
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
ایک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا
آنسو آ ہیں تنہائی ویرانی اور غم مسلسل
ایک ذرا سا عشق ہوا تھا کیا کیا وراثت میں دے گیا
مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کے شہر
بیٹھ جائیں گے جہاں بٹھا دو ہم کو
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر
ہم نے محبتوں کے نشے میں اسے خدا بنا ڈالا
ہوش تب آیا جب اس نے کہا کہ خدا کسی ایک کا نہیں ہوتا
جسے ڈھونڈتا ہے من یہاں وہاں
وہ تو بستہ ہے ٹوٹے ہوئے دلوں میں
تم مجھے جتنی اذیت دے سکتے تھے تم نے دے دی
اب تم دیکھو گے میرا صبر اور میری خاموشی
ہم سا محروم ِ تمنا بھی
لاکھوں میں نہ تھا
وہ زندگی جسے زندگی سے نسبت تھی
تمہاری زلفِ پریشاں پہ وار دی ہم نے
میں نے ہر شام یہی سوچا ہے
عمر گزری ہے کہ دن گزرا ہے
ثبوت عشق کی یہ بھی تو ایک صورت ہے
کہ جس سے پیار کریں اس پہ تہمتیں بھی دھریں
آنکھوں کی عدت ابھی پوری نہیں ہوتی
کے ایک اور خواب کفن اوڑھ لیتا ہے
ہاک کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رکا
ایک قطرے نے ڈبویا مجھے دریا ہو کر
چاند نکلا تو میں لوگوں سے لپٹ لپٹ کر رویا
غم کے آنسو تھے جو خوشیوں کے بہانے نکلے
ذرا تلخ لہجے میں بات کر ذرا بے رخی سے پیش آ
میں اسی نظر سے تباہ ہوا مجھے دیکھ نا پیار سے
0 Comments
Dear Visitors please don't send bad comment and don't share spam links.thank you for your support.