Mohsan Naqvi

Mohsan Naqvi Poetry in Urdu


Mohsan Naqvi
Mohsan Naqvi


نہ سماعتوں میں تپش گُھلے نہ نظر کو وقفِ عذاب کر
جو سنائی دے اُسے چپ سِکھا جو دکھائی دے اُسے خواب کر
ابھی منتشر نہ ہو اجنبی، نہ وصال رُت کے کرم جَتا!
جو تری تلاش میں گُم ہوئے کبھی اُن دنوں کا حساب کر
مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دو پہر پہ یہ ابر کیوں؟
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر
کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں
کبھی دل کو تَھل کا مزاج دے کبھی چشمِ تَر کو چناب کر
یہ ہُجومِ شہرِ ستم گراں نہ سُنے گا تیری کبھی صدا
مری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خواہشوں سے خطاب کر
یہ جُلوسِ فصلِ بہار ہے تہی دست، یار، سجا اِسے
کوئی اشک پھر سے شرر بنا کوئی زخم پھر سے گلاب کر
”مُحسن نقوی“


یہ کتنا مختصر سچ ہے!
وہ کہتا تھا____!
بدن کاغذ کی ناؤ ہے
اِسے گیلا نہ ہونے دے!
”مُحسن نقوی“






دل جو ٹوٹے تو سرے محفل بھی
بال بے وجہہ بکھر جاتے ہیں
تم کہا ں جاو گے سوچو محسن
لوگ تھک ہار کے گھر جاتے ہیں
”مُحسن نقوی“



میں چپ رہوں کبھی بے وجہ ہنس پڑوں "محسن"
اسے گنوا کے عجب حوصلے تلاش کروں.۔۔۔۔۔!!
”مُحسن نقوی“



زنداں میں حُریت کے دریچوں کو وا کیا
ہر فرضِ کردگار اُجڑ کر ادا کیا
اِسلام کو حٰسین ع سا بھائی عطا کیا
پِھر بھی یہ پُوچھتے ہو کہ زینب ع نے کیا کیا؟
دیں کی خزاں کو تھی جو ضرورت بہار کی
زینب ع نے ہنس کے چادرِ زہرا ع نثار کی!
”مُحسن نقوی“


ﺑﺠﺰ ﮨﻮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻧﮧ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﺗﯿﺮﮮ !
ﻣﯿﮟ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮨﻮﮞ، ﮐﺮﻭﮞ ﮐﺲ ﺳﮯ ﺗﺬﮐﺮﮮ ﺗﯿﺮﮮ؟
ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﻗﺮﺏ ﮐﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﮨﮯ ﺍﮮ ﻧﮕﺎﺭِ ﭼﻤﻦ !
ﮨﻮﺍﻣﯿﮟ ﺭﻧﮓ ﻧﮧ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻣﯿﮟ ﺫﺍﺋﻘﮯ ﺗﯿﺮﮮ
ﻣﯿﮟ ﭨﮭﯿﮏ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﺗﺠﮭﮯ ﺟﺘﺎ ﻧﮧ ﺳﮑﺎ
ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺋﻞ ﺗﮭﮯ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﺗﯿﺮﮮ
ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻻﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺍ ﻋﮑﺲ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﺗﯿﺮﮮ
ﮔﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺯﺧﻢ، ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺷﮏ ﮐﮩﻮﮞ
ﺳﻨﺎﺅﮞ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺗﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺗﺒﺼﺮﮮ ﺗﯿﺮﮮ
ﯾﮧ ﺩﺭﺩ ﮐﻢ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯﮐﮧ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﻧﮧ ﻣﻼ
ﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﺗﯿﺮﮮ
ﺟﺪﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺭﻻ ﮔﯿﺎ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ !
ﭼﺮﺍﻍ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺑﺠﮫ ﮔﺌﮯﮮ ﺗﯿﺮﮮ
ﮨﺰﺍﺭ ﻧﯿﻨﺪ ﺟﻼﺅﮞ ﺗﺮﮮ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ
ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ ﻭﮦ ﺭﺗﺠﮕﮯ ﺗﯿﺮﮮ
ﮨﻮﺍﺋﮯ ﻣﻮﺳﻢِ ﮔﻞ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﻮﺭﯾﺎﮞ ،
ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﻮﮞ ﻓﻀﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﮩﻘﮩﮯ ﺗﯿﺮﮮ
ﮐﺴﮯ ﺧﺒﺮ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﮨﯿﮟ ﻣﺤﺴﻦ
ﻭﮦ ﮐﺮﻭﭨﯿﮟ ﺷﺐِ ﻏﻢ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺣﻮﺻﻠﮯ ﺗﯿﺮﮮ
”مُحسن نقوی“


میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں برف برف محبتوں پہ غمِ جہاں کا اثر نہ ہو
راہ و رسمِ دنیا کی بندشیں ، غمِ ذات کے سبھی ذائقے
سمِ کائنات کی تلخیاں، کسی آنکھ کو بھی نہ چھو سکیں!!!
”مُحسن نقوی“


‏ہر صبح ، مکافات کی شاموں کے لیے ہے
دنیا دلِ نادار کے کاموں کے لیے ہے
اعدائے نبوت کا ٹھکانہ ہے جہنم
جنت تو محمد ؐ کے غلاموں کے لیے ہے
محسن نقوی

نبی کی آل سے الفت نہیں تو مر جاو
تمھارا مرنا ہی بہتر ہے ایسے جینے سے.
محسن نقوی

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ​
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ​
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر​
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ​
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں​
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ​
کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے​
شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ​
ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا​
سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ​
رزق، ملبوس ، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا​
منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ​
دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن​
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ
محسن نقوی

میرے ٹوٹے ہوئے خوابوں کے خرابوں سے پرے
میرے بکھرے ہوئے جذبے تھے سلامت کیا کیا؟
محسؔن نقوی

میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میں نے اس شہر کی چاہت سے شرف پایا ہے
میرے اعادہ کا غضب ابرِ کرم ہے مجھ کو
میرے احباب کی نفرت میرا سرمایہ ہے،!!!
( محسن نقوی )


ﺍﺏ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻓﻘﻂ ﺩُﮬﻮﻝ ہے کچھ یادوں کی
ہم ﺍُﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﺐ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ؟؟
(مُحسن نقوی)


گزرا ہے شب کو دشت سے شاید وہ پردہ دار
ہر نقشِ پاکے ساتھ ردا کی لکیر تھی
(مُحسن نقوی)

اُجڑ اُجڑ کے سنورتی ھے ، تیرے ھجر کی شام
نہ پُوچھ ، کیسے گزرتی ھے ، تیرے ھجر کی شام
یہ برگ برگ اُداسی ، بکھر رھی ھے میری
کہ شاخ شاخ اُترتی ھے ، تیرے ھجر کی شام
اُجاڑ گھر میں ، کوئی چاند کب اُترتا ھے
سوال مجھ سے یہ کرتی ھے ، تیرے ھجر کی شام
میرے سفر میں ، ایک ایسا بھی موڑ آتا ھے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ھے ، تیرے ھجر کی شام
بہت عزیز ھیں ، دل کو یہ زخم زخم رُتیں
انہی رُتوں میں نکھرتی ھے ، تیرے ھجر کی شام
یہ میرا دل ، یہ سراسر نگارخانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ھے ، تیرے ھجر کی شام
جہاں جہاں بھی ملیں ، تیری قربتوں کے نشاں
وھاں وھاں سے ابھرتی ھے ، تیرے ھجر کی شام
یہ حادثہ تجھے شاید اُداس کر دے گا
کہ میرے ساتھ ھی مرتی ھے ، تیرے ھجر کی شام
محسن نقوی


محبتوں میں کچھ ایسے بھی حال ھوتے ھیں
خفا ھوں جن سے، انہی کے خیال ھوتے ھیں
مچلتے رہتے ھیں ذہنوں میں وسوسوں کی طرح
حسیں لوگ بھی جان کا وبال ھوتے ھیں
تیری طرح میں دل کے زخم چھپاوں کیسے
کہ تیرے پاس تو لفظوں کے جال ھوتے ھیں
بس ایک تو ہی سبب تو نہیں اداسی کا
طرح طرح کے دلوں کو ملال ھوتے ھیں
سیاہ رات میں جلتے ھیں جگنووں کی طرح
دلوں کے زخم بھی محسن کمال ھوتے ھیں
محسن نقوی


ہم سے کیا پوچھنا مزاج حیات
ہم تو بس اک دریدہ دامن میں
بھر کے خاکستر دیار وفا
لے کے صدیوں کی باس پھرتے ہیں
ان دنوں شہر بھر کے رستوں میں
ہم اکیلے اداس پھرتے ہیں
اب یہ سوچیں تو آنکھ بھر آئے
ان اکیلے اداس رستوں میں
تو بھی شاید کہیں نظر آئے
محسن نقوی

یوں میرے دل کے برابر تیرا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں !!!
محسن نقوی


آتا ہے کون کون ۔۔۔۔۔۔ میرے غم کو بانٹنے ۔۔۔۔
محسن تو میری موت کی افواہ اڑا کر دیکھ ۔۔۔۔
محسن نقوی

یہ عجیب فصلِ فراق ہے
کہ نہ لب پہ حرفِ طلب کوئی
نہ اداسیوں کا سبب کوئی
نہ ہجومِ درد کے شوق میں
کوئی زخم اب کے ہَرا ہُوا
نہ کماں بدست عدُو ہُوئے
نہ ملامتِ صفِ دُوستاں
پہ یہ دل کسی سے خفا ہُوا
کوئی تار اپنے لباس کا
نہ ہَوا نے ہم سے طلب کیا
پے چارہ غمِ دو جہاں
نہ مسیح کوئی نہ چارہ گر
نہ کسی خیال کی جستجُو
نہ خلش کسی کے وصال کی
نہ تھکن رہ مہ و سال کی
نہ دماغ رنجِ بُتاں
نہ تلاش لشکرِ ناصحاں
وہی ایک رنگ ہے شوق کا
وہی ایک رسم ہے شہر کی
نہ نظر میں خوف ہے رات کا
نہ فضا میں دن کا ہراس ہے
پے عرضِ حال ہے سخن وراں
وہی ہم سخن ہے رفیقِ جاں
وہی ہم سخن جسے دل کہیں
وہ تو یوں بھی کب کا اُداس ہے۔
محسن نقوی

میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں برف برف محبتوں پہ غمِ جہاں کا اثر نہ ہو
راہ و رسمِ دنیا کی بندشیں ، غمِ ذات کے سبھی ذائقے
سمِ کائنات کی تلخیاں، کسی آنکھ کو بھی نہ چھو سکیں!!!
محسن نقوی

دیکھا نہ کسی نے بھی میری سمت پلٹ کر
محسن میں بکھرتے ہوئے شیشوں کی صدا تھا!
محسن نقوی

ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے
ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے
ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِکصورت اور بھی ہے
ڈوبتا سوُرج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے
صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں
اُس میں بچوں جیسی ضِد کرنے کی عادت اور بھی ہے
صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا، دل نے پھر محسوس کیا
اور بھی گہری چوٹ لگی ہے، درد میں شدّت اور بھی ہے
میری بھیگتی پلکوں پر جب اُس نے دونوں ہاتھ رکھے
پھر یہ بھید کھُلا اِن اشکوں کی کچھ قیمت اور بھی ہے
اُس کو گنوا کر محسن اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اوربھی ہے
محسن نقوی


ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺳﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﮐﺲ ﻗﺮﺽ ﮐﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺍﺩﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺁ ﻃﻮﺭ ﭘﮧ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﮯ ﺑﺎﻗﯽ
ﺷﺎﯾﺪ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺧﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺗﮭﮏ ﮨﺎﺭ ﮐﮯ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﮯ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﮧ ﺗﯿﺮﯼ
ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﺎ ﻣﺤﺴﻦ ﮨﮯ ﮔﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟ ﯾﻮﺳﻒ ﺳﺎ ﺣﺴﯿﮟ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﯾﻌﻘﻮﺏ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﻮ ِﻧَﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺁ ﻃﻮﺭ ﭘﮧ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﮯ ﺑﺎﻗﯽ
ﺷﺎﯾﺪ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺧﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺷﻤﻊ ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻣﺪ ﮐﻮ ﺟﻼﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺳﺮ ِﺷﺎﻡ
ﮨﻮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﭘﺮﻭﺍﻧﮯ ﻓﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﮐﭽﮫ ﻋﺎﻟﻢ ِﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﺎ ﺳﺎﺗﮫ
ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺭﮨﯿﮟ ﺳﯿﻼﺏ ﺯﺩﮦ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﻣﺤﺴﻦ ﮐﻮ ﺷﺐِ ﻭﺻﻞ ﻣﻼ ﺟﺎﻡ ﺑَﻤﺸﮑﻞ
ﮨﻮ ﭘﺎﺋﮯ ﻧﮧ ﭘﮭﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
(محسن نقوی)


کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑھے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو،
یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ،
نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
محسن نقوی


تیرا بیگانوں سا ہم سے ہے رویہ محسن
باوجود اس کے ترے عشق میں مشہور ہیں ہم
محسن نقوی

سنا ہے زمیں پر وہی لوگ ملتے ہیں
جن کو کبھی آسمانوں کے اُس پار
روحوں کے میلے میں
اک دوسرے کی محبت ملی ہو ...؟
محسن نقوی


تو کیا ہو گا؟
یِہی ہوگا کہ تم مجھ سے بِچھڑ جاؤ گی
جیسے رنگ سے خوشبو،
بدن سے دوڑ سانسوں کی!
گرفتِ شام سے۔۔۔ناراض سورج کی کرن
اِک دم بِچھڑ جائے!
محسن نقوی


محسن وہ میری آنکھ سے اوجھل ہوا نا جب
سورج تھا میرے سر پہ مگر____رات ہو گئی.
محسن نقوی


خود وقت مرے ساتھ چلا وہ بھی تھک گیا
میں تیری جستجو میں بہت دور تک گیا
کچھ اور ابر چاند کے ماتھے پہ جھک گئے
کچھ اور تیرگی کا مقدر چمک گیا
کل جس کے قرب سے تھی گریزاں مری حیات
آج اس کے نام پر بھی میرا دل دھڑک گیا
میں سوچتا ہوں شہر کے پتھر سمیٹ کر
وہ کون تھا جو راہ کو پھولوں سے ڈھک گیا
دشمن تھی اُس کی آنکھ جو میرے وجود کی
میں حرف بن کے اس کی زباں پر اٹک گیا
اب کوئی سنگ پھینک کہ چمکے کوئی شرر
میں شہرِ آرزو میں اچانک بھٹک گیا
مت پوچھ فکرِ زیست کی غارت گری کا حال
احساس برف برف تھا لیکن بھڑک گیا
احباب جبرِ زیست کے زنداں میں قید تھے
محسنؔ! میں خود صلیبِ غزل پر لٹک گیا
محسن نقوی


اشک اپنا کہ تمہارا، نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ســتارا، نہیں دیکھا جاتا
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا
موج در موج الجھنے کی ہوس، بے معنی
ڈوبنا ہو ــ تو سہارا نہیں دیکھا جاتا
تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا
آگ کی ضد پہ نہ جا ــ پھر سے پھڑک سکتی ہے
راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا
زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا
کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے "محسن"
دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا
محسن نقوی


میں جاگتی آنکھوں سے جسے ڈھونڈنا چاہوں
وہ شخص مجھے خواب میں اکثر نظر آئے......
محسن نقوی

افف شب غم کا وہ ٹھہرا ہوا لمحہ محسن
جب میرے وہم کی آہٹ بھی جگا دے مجھ کو
محسن نقوی



میں چپ رہوں کبھی بے وجہ ہنس پڑوں "محسن"
اسے گنوا کے عجب حوصلے تلاش کروں.۔۔۔۔۔!!
”مُحسن نقوی“


اک پاگل سی لڑکی دُھوپ میں ہنس ہنس جی بہلائے
ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ، ٹھوکر کھا کھا جائے
نرم نرم سا بستر اُس کا ، گرم گرم سے ہونٹ
شرم شرم سے مرتی جائے جب بھی رَین سجائے
اُوڑھ کے اُجلی دُھوپ کی چادر، چاند نگر کی چھوری
دُور کھڑی مسکائے گوری ، میرے پاس نہ آئے
”مُحسن نقوی“



محبتوں میں اذّیت شناس کتنی تھیں
بچھڑتے وقت وہ آنکھیں اُداس کتنی تھیں
فلک سے جن میں اُترتے ھیں قافلے غم کے
مری طرح وہ شبیں اُس کو راس کتنی تھیں
غلاف جن کی لحد پر چڑھائے جاتے ھیں
وہ ھستیاں بھی کبھی بے لباس کتنی تھیں؟
بچھڑ کے تجھ سے کسی طور دِل بہل نہ سکا
نِشانیاں بھی تری میرے پاس کتنی تھیں
اُتر کے دل میں بھی آنکھیں اُداس لوگوں کی
اسیرِ وھم و رھینِ ھراس کتنی تھیں
وہ صُورتیں جو نکھرتی تھیں میرے اشکوں سے
بچھڑ کے پھر نہ ملیں ، ناسپاس کتنی تھیں
جو اُس کو دیکھتے رھنے میں کٹ گئیں محسن
وہ ساعتیں بھی محیطِ حواس کتنی تھیں ؟
مُحسن نقوی


لغزشوں سے ماورا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خداتو بھی نہیں میں بھی نہیں
توجفا کی ، میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن
پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو مجھے ، میں تجھے الزام دھرتا ہوں
اپنے من میں جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مصلحت نے کر دیے دونوں میں پیدا اختلاف
ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
بد گمانی شہر میں کس نے پھیلا دی جبکہ
ایک دوجے سے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جرم کی نوعیتو ں میں کچھ تفاوت ہو توہو
در حقیقت پارسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جان محسن تو بھی تھا ضدی انا مجھ میں بھی تھی
دونوں خودسر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مُحسن نقوی


تمام عمر وہی قصہ سفر کہنا...!!
کہ آسکا نا ہمیں اپنے گھر کو گھر کہنا
جو دن چڑھے تو تیرے وصل کی دعا کرنا
جو رات ہو تو دعا ہی کو بے اثر کہنا..
یہ کہہ کے ڈوب گیا آج آخری سورج
کے ہو سکے تو اسی شب کو اب سحر کہنا
میں اب سکوں سے رہوں گا کہ آ گیا ہے مجھے
کمالِ بے ہنری کو بھی اِک ہنر کہنا..!!
وہ شخص مجھ سے بہت بدگمان سا رہتا ہے
یہ بات اس سے کہو بھی تو سوچ کر کہنا
کبھی وہ چاند جو پوچھے کے شہر کیسا ہے
بجھے بجھے ہوئے لگتے ہیں بام و در کہنا
ہمارے بعد عزیزوں ہمارا افسانہ
کبھی جو یاد بھی آئے تو مختصر کہنا
وہ ایک میں کے میرا شہر بھر کو اپنے سوا
تیری وفا کے تقاضوں سے بے خبر کہنا
وہ اِک تُو کہ تیرا ہر کسی کو میرے بغیر
معاملاتِ محبت میں معتبر کہنا...!
وفا کی طرز ہے محسن کے مصلحت کیا ہے
یہ تیرا دشمن جان کو بھی چارہ گر کہنا
محسن_نقوی

وہ جس کی چاہت میں اپنی سانسیں لٹا رہی ھے
وہ" میں" نہیں ھوں
وہ آنکھوں آنکھوں میں بولتی ھے
محسنؔ نقوی



یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں !!
جب آنکھ میں خواب دمکتے تھے
جب دل میں داغ چمکتے تھے !!
جب پلکیں شہر کے رستوں میں
اشکوں کا نور لٹاتی تھیں !!
جب سانسیں اجلے چہروں کی
تن من میں پھول سجاتی تھیں
جب چاند کی رم جھم کرنوں سے
سوچوں میں بھنور پڑ جاتے تھے
جب ایک تلاطم رہتا تھا !
اپنے بے انت خیالوں میں
ہر عہد نبھانے کی قسمیں
خط، خون سے لکھنے کی رسمیں
جب عام تھیں ہم دل والوں میں
اب اپنی اجڑی آنکھوں میں
جتنی روشن سی راتیں ہیں،
اس عمر کی سب سوغاتیں ہیں
جس عمر کے خواب خیال ہوئے
وہ پچھلی عمر تھی بیت گئی
وہ عمر بتائے سال ہوئے
اب اپنی دید کے رستے میں !!
کچھ رنگ ہے گزرے لمحوں کا
کچھ اشکوں کی باراتیں ہیں!
کچھ بھولے بسرے چہرے ہیں
کچھ یادوں کی برساتیں ہیں
پچھلے عشق کی باتیں ہیں !
(محسن نقوی)


فراقِ یار کی بارش، ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اترا کمال کا موسم
(محسن نقوی)


Itna Khaali To Ghar Nhi,Hum Hain
Hum Nhi Hain Magar Nahi , Hum Hain
Chasham-e-Dushman K Khof Se Poocho
Nok-e-Neza Pe Sar Nhi, Hum Hain
Sham-e-Tanhai Gham Na Kr K Tera
Koi Humsafar Bhi Nhi, Hum Hain
Chand Se Keh Do, Be-Dharak Utray
Ghar Main Diwarr o Dar Nhi, Hum Hain
Vo Jo Sab Se Hain Be-Khabar, Tum Ho
Jin Ko Apni Khabar Nhi, Hum Hain
Kion Jalaty Ho Jhompari Apni ?
Is Main Lal-o-Gohar Nhi, Hum Hain
Hum Hain Hum-Zaad, Raat k Mohsin
Jin Ki Kismat Seher Nhi, Hum Hain

Post a Comment

0 Comments