Faiz Ahmed Faiz

 Faiz Ahmed Faiz poetry and Quotes


Faiz Ahmed Faiz
Faiz Ahmed Faiz


فیض احمد فیض (13 فروری 1911 - 20 نومبر 1984) ایک پاکستانی شاعر ، اور اردو اور پنجابی زبان کے مصنف تھے۔ وہ پاکستان میں اردو زبان کے سب سے مشہور ادیب تھے۔ ادب سے باہر ، انھیں "ایک وسیع تجربہ کا آدمی" کے طور پر بیان جانا جاتا ہے۔ وہ ایک استاد ، ایک آرمی آفیسر ، ایک صحافی ، ٹریڈ یونینسٹ اور ایک براڈکاسٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں ۔
فیض احمد فیض ادب کے نوبل انعام کے لئے بھی نامزد ہوئے تھے اورانہوں نے  لینن امن انعام بھی جیتا تھا۔ 
یہ پنجاب ، برٹش ہند میں پیدا ہوئے تھے ، انہوں نے گورنمنٹ کالج اور اورینٹل کالج میں تعلیم حاصل کی تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے برطانوی ہندوستانی فوج میں خدمات انجام دیں۔ پاکستان کی آزادی کے بعد ، فیض 1951 میں لیاقت انتظامیہ کا تختہ الٹنے اور اس کی جگہ بائیں بازو کی حکومت کے ساتھ تبدیل کرنے کی سازش کے مبینہ حصے کے طور پر گرفتار ہونے سے قبل دی پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر اور کمیونسٹ پارٹی کے ایک اہم رکن بن گئے۔ 

فیض احمد فیض کو چار سال قید کے بعد رہا کیا گیا اور وہ بیروت میں خود جلاوطن ہونے سے قبل ، ترقی پسند مصنفین کی تحریک کے ایک قابل ذکر رکن اور بالآخر بھٹو انتظامیہ کے معاون بن گئے تھے ۔ فیض ایک من پسند مارکسسٹ تھے ، اور انہیں 1962 میں سوویت یونین نے لینن امن انعام سے نوازا۔ ان کے کام کا پاکستان کے ادب اور فنون لطیفہ میں ابھی بھی بہت اثر ہے۔ 1990 میں جب حکومت پاکستان نے انہیں ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازا تو فیض کے ادبی کام کو عوامی سطح پر بے حد سراہا گیا۔
انکی شاندار شاعری کا ایک دلچسپ مجموعہ آپکی خدمت میں پیش ہے۔




جمے گی کیسے بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ گئے ہیں
سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سرِ شام بُجھ گئے ہیں
وہ تیرگی ہے رہِ بُتاں میں چراغِ رُخ ہے نہ شمعِ وعدہ
کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب در و بام بُجھ گئے ہیں
بہت سنبھالا وفا کا پیماں مگر وہ برسی ہے اب کے برکھا
ہر ایک اقرار مٹ گیا ہے تمام پیغام بُجھ گئے ہیں
قریب آ اے مہِ شبِ غم نظر پہ کُھلتا نہیں کچھ اس دَم
کہ دل پہ کِس کِس کا نقش باقی ہے کون سے نام بُجھ گئے ہیں
بہار اب آ کے کیا کرے گی کہ جن سے تھا جشنِ رنگ و نغمہ
وہ گل سرِ شام جل گئے ہیں ، وہ دل تہِ دام بُجھ گئے ہیں
-- فیض احمد فیض--



ربّا سچّیا
ربّا سچّیا توں تے آکھیا سی
جا اوئے بندیا جگ دا شاہ ہیں توں
ساڈیاں نعمتاں تیریاں دولتاں نیں
ساڈا نَیب تے عالیجاہ ہیں توں
ایس لارے تے ٹور کد پُچھیا ای
کِیہہ ایس نمانے تے بیتیاں نیں
کدی سار وی لئی اُو رب سائیاں
تیرے شاہ نال جگ کیہہ کیتیاں نیں
کِتے دھونس پولیس سرکار دی اے
کِتے دھاندلی مال پٹوار دی اے
اینویں ہڈّاں چ کلپے جان میری
جیویں پھاہی چ کُونج کُرلاوندی اے
چنگا شاہ بنایا اِی رب سائیاں
پَولے کھاندیاں وار نہ آوندی اے
مینوں شاہی نئیں چاہیدی رب میرے
میں تے عزّت دا ٹُکّر منگناں ہاں
مینوں تاہنگ نئیں، محلاں ماڑیاں دی
میں تے جِیویں دی نُکّر منگناں ہاں
میری مَنّیں تے تیریاں مَیں منّاں
تیری سَونہہ جے اِک وی گلّ موڑاں
جے ایہہ مانگ نئیں پُجدی تیں ربّا
فیر میں جاواں تے رب کوئی ہور لوڑاں
فیض احمد فیض
1974ء


ہم ایک عمر سے واقف ہے اب نہ سمجھاؤ
کہ لطف کیاہے میرے مہرباں،ستم کیا ہے
فیض احمد فیض

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
فیض احمدفیض

محبت کرنے والوں کی تجارت بھی انوکھی ہے
منافع چھوڑ دیتے ہیں خسارہ بانٹ لیتے ہیں
فیض احمدفیض

تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
فیض احمدفیض

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
فیض احمدفیض

ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
فیض احمدفیض

اک تیری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیانہیں باقی؟
فیض احمدفیض

اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
فیض احمدفیض

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا 

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا 

فیض احمد فیض 


دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے 

 لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

 فیض احمد فیض 


کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب 

آج تم یاد بے حساب آئے 

 فیض احمد فیض 


اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

 آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

 فیض احمد فیض 


دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے

 وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

فیض احمد فیض 


تمہاری یاد کے زخم جب بھرنے لگتے ہیں 

کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں 

فیض احمد فیض 


وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا 

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

 فیض احمد فیض 


نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی 

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

 فیض احمد فیض 



آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان 

بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھا

 فیض احمد فیض 



نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں 

اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں 

فیض احمد فیض 




وہ آرہے ہیں وہ آتے ہیں آرہے ہوں گے

 شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے 

فیض احمد فیض 



مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں 

نہیں جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے 

فیض احمد فیض 


ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے 

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

 فیض احمد فیض 


آپ کی یاد آتی رہی رات بھر

 چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر 

فیض احمد فیض 


جانتا ہے کہ وہ نہ آئیں گے

 پھر بھی مصروف انتظار ہے دل 

فیض احمد فیض 


دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا

 تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے 

فیض احمد فیض 


کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی

 سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی

 فیض احمد فیض 



Post a Comment

0 Comments