Amjad islam Amjad
نہ کوئی غم خزاں کا ہے،نہ کوئی خواہش ہے بہاروں کی
ہمارے ساتھ ہے امجد کسی کی یاد کا موسم
امجداسلام امجد
حیرت سے سارے لفظ اسے دیکھتے رہے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا
امجداسلام امجد
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں
میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں
جسے تم ہنسی میں اڑا گئے
امجداسلام امجد
میری راتیں تیری یادوں سے سجی رہتی ہیں
میری سانسیں تیری خوشبو سے بسی رہتی ہیں
میری آنکھوں میں تیرا سپنا سجا رہتا ہے
ہاں میرے دل میں تیرا عکس بسا رہتا ہے
اس طرح میرے دل کے بہت پاس ہو تم
جس طرح پاس ہی شہہ رگ کے خدا رہتا ہے
تم کو معلوم بھی شاید کبھی ہو کہ نہ ہو
میرے آنگن میں لگے پھول گواہی دیں گے
میں نے عرصے سے کسی پھول کو دیکھا بھی نہیں
تجھ کو سوچا ہے تو پھر تجھ کو ہی سوچا ہے فقط
تیرے سوا کسی اور کو سوچا بھی نہیں
تم کو معلوم بھی شاید کبھی ہو کہ نہ ہو
تم مجھے اچھی لگتی ہو
بس تم مجھے اچھی لگتی ہو
تم اتنی سندر ہو کہ نہیں
تمہیں ایک نظر جو دیکھے وہ
سدھ بدھ بھولے، مدہوش رہے
بس تم مجھے اچھی لگتی ہو
تم ہنس دو تو موسم بدلیں
تم جاگو تو دنیا جاگے
جھلمل جھلمل منظر ہوں سب
اور نہ سوجھے کچھ آگے
بس تم کو دیکھیں،دیکھتے جائیں
معلوم نہیں اتنی پیاری ہو کہ نہیں
اتنی سندر ہو کہ نہیں
بس تم مجھے اچھی لگتی ہو
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو تیرے غم کے بہانے نکلے
امجد اسلام امجد
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں
امجداسلام امجد
بہت نزدیک ہوکربھی وہ اتنا دور ہے مجھ سے
اشارہ ہو نہیں سکتا، پکارا جا نہیں سکتا
امجد اسلام امجد
صرف احساس ندامت اک سجدہ اور چشم تر
اے خدا کتنا آسان ہے منانا تجھ کو
امجد اسلام امجد
جس طرف توُں ہے ادھر ہونگی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی
امجد اسلام امجد
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا ،اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
امجد اسلام امجد
لکھا تھا ایک تختی پر کوئی بھی پھول مت توڑے مگر آندھی تو ان پڑھ تھی
سو جب وہ باغ سے گزری کوئی اکھڑا کوئی ٹوٹا خزاں کے آخری دن تھے
امجد اسلام امجد
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے
ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی
امجد اسلام امجد
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر میری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
امجد اسلام امجد
جہاں ہو پیار، غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
امجد اسلام امجد
اس کے لہجے میں برف تھی لیکن
چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے
امجد اسلام امجد
ہر بات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے
امجد اسلام امجد
سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے
لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے
امجد اسلام امجد
اس نے آہستہ سے جب پُکارا مجھے
جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے
امجد اسلام امجد
چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
امجد اسلام امجد
یہ جوحاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے
یہ بھی تواپنی جگہ ایک پریشانی ہے
امجد اسلام امجد
ہمیں ہماری انائیں تباہ کردینگی
مکالمے کا اگرسلسلہ نہیں کرتے
امجد اسلام امجد
پیڑوں کی طرح حُسن کی بارش میں نہا لوں
بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن
امجداسلام امجد
پھرآج کیسے کٹے گی پہاڑوں جیسی رات
گزرگیاہے یہی بات سوچتے ہوئے دن
امجداسلام امجد
گزریں جو مرے گھر سے تو رُک جائیں ستارے
اس طرح میری رات کو چمکاؤ کسی دن
امجد اسلام امجد
سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت ،سو ہم
تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں
امجداسلام امجد
تمہیں نے کون سی اچھائی کی ہے
چلو مانا کے میں اچھا نہیں تھا
امجد اسلام امجد
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے
جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی
امجد اسلام امجد
ایک نظر دیکھا تھا اس نے آگے یاد نہیں
کھل جاتی ہے دریا کی اوقات سمندر میں
امجد اسلام امجد
تم ہی نے پاؤں نہ رکھا وگرنہ وصل کی شب
زمیں پہ ہم نے ستارے بچھا کے رکھے تھے
امجد اسلام امجد
کیا ہوجاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں
امجد اسلام امجد
مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند
ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے
امجد اسلام امجد
بات تو کچھ بھی نہیں تھی لیکن اس کا ایک دم
ہاتھ کو ہونٹوں پر رکھ کر روکنا اچھا لگا
امجد اسلام امجد
بچھڑ کے تجھ سے نہ جی پائے مختصر یہ ہے
اس ایک بات سے نکلی ہے داستاں کیا کیا
امجد اسلام امجد
بے وفا تو خیر تھا، امجد
لیکن اس میں کہیں وفا بھی تھی
امجد اسلام امجد
کمال حسن ہے حسن کمال سے باہر
غزل کا رنگ ہے جیسے مثال سے باہر
امجد اسلام امجد
قدم اٹھا ہے تو پاؤں تلے زمیں نہیں نہیں
سفر کا رنج ہمیں خواہشِ سفر سے ہوا
امجد اسلام امجد
دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
رنجشوں کے مٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
امجد اسلام امجد
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
امجد اسلام امجد
ہر سمندر کا ایک ساحل ہے
ہجر کی رات کا کنارہ نہیں
امجد اسلام امجد
حادثہ بھی ہونے میں وقت تو لگتا ہے
بخت کے بگڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
امجد اسلام امجد
جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں، امجد
آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرہ چمکا
امجد اسلام امجد
کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے
ایک پتھر پھینکنے سے سے پڑ گئے کتنے بھنور
امجد اسلام امجد
زندگی درد بھی دوا بھی تھی
ہمسفر بھی گریز پا بھی تھی
امجد اسلام امجد
0 Comments
Dear Visitors please don't send bad comment and don't share spam links.thank you for your support.